ایک مؤثر مذہبی رہنما کے لئے اسلامی تعلیمات اور سماجی ضروریات کی گہری سمجھ ضروری ہے۔ تاہم، خلفائے ثلاثہ کی زندگی کا تفصیلی جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ، خلفائے ثلاثہ اس معیار پر پورے نہیں اترتے۔ خلفائے ثلاثہ کی محدود علمی صلاحیت اور ناکافی آگاہی کی وجہ سے، اسلامی تعلیمات کو مؤثر طریقے سے لوگوں تک پہنچانے اور انصافی کی فراہمی میں ناکام رہے۔ اس لئے خلفائے ثلاثہ کی قیادت کو اسلامی اقتدار کو چلانے میں ایک رکاوٹ کے سوا کچھ نہیں۔
قرآن کے بعد آگاہی کا واحد ذریعہ احادیث و سنت
قرآن مجید کے بعد اسلامی معاشرے کو ارتقاء بخشنے کا واحد راستہ سنت و احادیث پیغمبر (ص) سے آگاہی ہے کہ ان کا اعتبار اور حجیت تمام مسلمانوں کی نظر میں مسلّم ہے۔ قرآن مجید نے بھی بہت سی آیات میں سنّت اور احادیث پیغمبر (ص) پر عمل کو ضروری قرار دیا ہے مثال کے طور پر درج ذیل آیہ شریفہ ملاحظہ کریں:
’’وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا‘‘۔[1]
اور جو کچھ رسول (ص) تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔
لیکن خلفائے ثلاثہ اسلامی احکام کے بارے میں کوئی نمایاں آگاہی نہیں رکھتے تھے اور ان ناقص اور معمولی معلومات کے ذریعے انسانی قافلے کو ہرگز کمال کی منزل تک نہیں پہنچایا جاسکتا، جس کے لئے خود اسلامی احکام پر عمل پیرا ہونا لازم ہے۔
اسلامی احکام کا علم ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ لیکن خلفائے ثلاثہ، جو اسلام کے تین بڑے ستون سمجھے جاتے ہیں، کے بارے میں ان کی علمی اور فقہی صلاحیت سے متعلق آگاہی بہت کم تھی۔ وہ اسلامی احکام سے واقف نہ تھے اور ان کی زندگیوں میں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے خلاف تھیں۔ خلفائے ثلاثہ کی، احکام دین سے لاعلمی کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں۔
ابوبکر سے نقل کی گئی احادیث
احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں جو روایتیں خلفائے ثلاثہ میں سے، ابوبکر سے نقل کی ہیں ان کی کل تعداد 80 سے زیادہ نہیں ہے[2]۔ جلال الدین سیوطی نے انتہائی کوشش کرکے ان کی تعداد 104 تک پہنچائی ہے۔[3]
سر انجام ابوبکر سے نقل کی گئی روایتوں کی آخری تعداد 142 بتائی گئی ہے۔[4] ان میں سے بھی بعض روایتیں نہیں ہیں بلکہ کچھ باتیں ہیں جو ان سے نقل کی گئی ہیں مثلا ایک حدیث جو ان سے نقل کی گئی ہے اور انہی 142 احادیث میں شمار ہوتی ہے یہ جملہ ہے:
”أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ (وآله) وَسَلَّمَ أَهْدَى جَمَلا لأَبِي جَهْلٍ“۔
یعنی پیغمبر (ص) نے ابوجہل کو ایک اونٹ ہدیہ کے طور پر دیا۔
اس کے علاوہ ان سے نقل کی گئی کئی احادیث قرآن مجید اور عقل کے منافی ہیں مثلاً درج ذیل دو حدیثیں ملاحظہ فرمائیں۔
حدیث اول
’’إن الميت ينضح عليه الحميم ببكاء الحي‘‘۔
یعنی، زندہ لوگوں کے رونے سے مردے پر گرم پانی ڈالا جاتا ہے۔
واضح ہے کہ اس حدیث کا مضمون چند لحاظ سے مردود ہے۔ اولاً میت پر معقول رونا، انسانی جذبات کی علامت ہے اور پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے بیٹے ابراہیم کے سوگ میں شدت سے آنسو بہائے تھے اور فرماتے تھے:
پیارے ابراہیم! ہم تیرے لئے کچھ نہیں کرسکتے، تقدیر الٰہی ٹالی نہیں جاسکتی، تیری موت پر تیرے باپ کی آنکہیں اشک بار ہیں اور اس کا دل محزون ہے، لیکن میں ہرگز ایسی بات زبان پر جاری نہیں کروں گا جو قہر خدا کا سبب بنے۔[5]
جب پیغمبر اسلام (ص) ”جنگ مؤتہ“ میں ”جعفر ابن ابو طالب“ کی شہادت کی خبر سے آگاہ ہوئے، تو آپ اس قدر روئے کہ آپ کی ریش مبارک پر آنسو جاری ہوگئے تھے۔[6]
دوماً، یہ کہ ہم فرض بھی کرلیں کہ اس قسم کا رونا صحیح نہ ہوگا، تو آخر کسی ایک کے عمل سے دوسرا کیوں عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ قرآن مجید فرماتا ہے:
’’وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ‘‘۔[7]
اور کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔
پھر ابوبکر کے نقل کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) نے یہ کیسے فرما دیا کہ کسی کے رونے سے، ایک بے بس مردہ عذاب میں مبتلا ہوگا؟!
حدیث دوم
”إِنَّمَا حَرُّ جَهَنَّمَ عَلَى أُمَّتِي مِثْلُ حَرِّ الْحَمَّامِ“۔
یعنی، میری امت کے لئے جہنم کی گرمی حمام کی گرمی کی مانند ہے۔
یہ بیان گناہ گاروں کے گستاخ ہونے کا سبب بننے کے علاوہ، جہنم کے بارے میں قرآن مجید میں بیان شدہ واضح و یقینی حکم کے بالکل خلاف ہے۔ جیسے ”وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ“ اس کا ایندھن پتھر اور انسان ہیں۔
بہرحال جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا، جو احادیث ابوبکر سے نقل ہوئی ہیں وہ یا ان کے معمولی بیانات ہیں یا وہ چیزیں ہیں جو عقل و قرآن مجید سے ٹکراؤ رکھتی ہیں۔ اور جسے حدیث کا نام دیا جائے ان میں بہت کم ملتی ہیں۔
ظاہر ہے کہ ایسا شخص، ان ضعیف اور ناچیز معلومات کے ساتھ اسلامی معاشرے کو ارتقا اور کمال کی طرف رہنمائی نہیں کرسکتا، اور امت کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتا۔
خلفائے ثلاثہ میں سے، خلیفہ، خود اپنے ایک بیان میں اپنی معلومات سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں:
”وُلِّيتُ أَمَرَكُمْ وَلَسْتُ بِخَيْرِكُمْ، فَإِنْ أَنَا أَحْسَنْتُ فَأَعِينُونِي وَإِنْ أَنَا أَسَأْتُ فَسَدِّدُونِي‘‘۔[8]
تمہارے امور کی باگ ڈور میرے ہاتھ میں دے دی گئی ہے، جبکہ میں تم میں سے بہترین فرد نہیں ہوں، اگر تم لوگ مجھے حق پر دیکھو تو میری مدد کرو اور اگر مجھے باطل پر دیکھو تو میری مخالفت کرو اور مجھے اس کام سے روکو“
دین و مذہب کے قائد کو جس کے نقش قدم پر اسلامی معاشرے کو چلنا ہے دینی مسائل میں امت سے مدد کا محتاج نہیں ہونا چاہئے۔ یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ دینی قائد بجائے اس کے کہ امت کو تخلیق کے مقصد کی طرف راہنمائی کرے اپنی غلطیاں اور گمراہیاں سدھارنے کے لئے امت سے مدد مانگے۔
ابوبکر کی، احکام دین سے لاعلمی کے نمونے
یہاں پر ہم خلفائے ثلاثہ کی معلومات سے متعلق، چند نمونے پیش کرتے ہیں جو بذات خود دینی مسائل کے بارے میں ان کی معلومات کی سطح کے گواہ ہیں۔ یہ نمونے اس امر کی حکایت کرتے ہیں کہ وہ بہت سے روزمرہ کے مسائل کے جواب سے بھی ناواقف تھے:
پہلا نمونہ
”دادی“ کی وراثت کا مسئلہ عام مسائل میں سے ہے خلیفہ اس کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتے تھے۔ ایک عورت کا پوتا فوت ہوگیا تھا اور اس نے اس سلسلے میں ان سے حکم خدا پوچھا، انہوں نے جواب دیا کہ: کتاب خدا اور پیغمبر (ص) کے ارشادات میں اس بارے میں کچھ بیان نہیں ہوا ہے۔
اس کے بعد اس عورت سے کہا: تم جاؤ، میں رسول خدا کے صحابیوں سے پوچھوں گا کہ کیا انہوں نے پیغمبر خدا (ص) سے اس سلسلے میں کچھ سنا ہے؟! ’’مغیرة بن شعبہ‘‘ جو اسی مجلس میں موجود تھا، اس نے کہا: میں پیغمبر خدا (ص) کی خدمت میں تھا، آپ نے دادی کے لئے میراث میں سے 3/1 حصہ مقرر فرمایا تھا۔[9]
خلیفہ کی لاعلمی زیادہ تعجب خیز نہیں ہے بلکہ تعجب اس بات پر ہے کہ اس نے مغیرہ جیسے آلودہ اور بد کردار شخص سے حکم الٰہی سیکھا۔
دوسرا نمونہ
ایک ایسا چور خلیفہ کے پاس لایا گیا جس کا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کاٹا جا چکا تھا، انہوں نے حکم دیا اس کا پاؤں کاٹ دیا جائے، خلیفہ دوم نے اشارہ کیا کہ ایسے موقع پر سنت پیغمبر (ص) یہ ہے کہ ہاتھ کاٹا جائے، اس پر خلیفہ نے اپنا نظریہ بدل دیا اور خلیفہ دوم کے نظریہ کی پیروی کی۔[10]
ان دو نمونوں سے فقہ اسلامی کے بارے میں خلیفہ کی معلومات کے کمی کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اور واضح ہے کہ اس قدر معلومات کے فقدان اور مغیرہ جیسے افراد سے رجوع کرنے والے شخص کے ہاتھوں میں معاشرے کی معنوی قیادت کی باگ ڈور ہرگز نہیں دی جا سکتی ہے جس کی بنیادی شرط اسلامی احکام سے متعلق وسیع معلومات کا حامل ہونا ہے۔
عمر کی، احکام دین سے لاعلمی کے نمونے
الٰہی احکام کے بارے میں خلفائے ثلاثہ میں سے عمر بھی لاعلمی کے میدان سے باہر نہیں ہیں ان کی زندگی میں ہمیں بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں جو خلاف عقل اور شرع تھے۔
عمر نے جن احادیث کو پیغمبر (ص) سے نقل کیا ہے ان کی تعداد پچاس سے زیادہ نہیں ہے۔ درج ذیل داستان خلیفہ دوم کے فقہی معلومات کی سطح کی صاف گواہ ہے:
پہلا اول
ایک شخص نے عمر کے پاس آکر ان سے دریافت کیا: مجنب ہوں اور پانی تک رسائی نہیں حاصل کرسکا۔ ایسے میں میرا فریضہ کیا ہے؟
عمر نے جواب دیا: تم سے نماز ساقط ہے، خوشبختی سے ”عمار“ اس جگہ موجود تھے انہوں نے خلیفہ کی طرف رخ کرکے کہا: یاد ہے کہ ایک جنگ میں ہم دونوں مجنب ہوئے تھے اور پانی نہ ہونے کی وجہ سے، میں نے مٹی سے تیمم کرکے نماز پڑھی تھی، لیکن تم نے نماز نہیں پڑھی تھی؟ جب پیغمبر (ص) سے یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: کافی تھا اپنے ہاتھوں کو زمین پر مار کر چہرے پر ملتے یعنی تیمم کرتے۔
خلیفہ نے عمار کی طرف رخ کرکے کہا: خدا سے ڈرو؟ (یعنی اب اس بات کو بیان نہ کرنا) عمار نے کہا: اگر آپ نہیں چاہتے تو میں اس واقعے کو کہیں بیان نہیں کروں گا۔[11]
یہ واقعہ اہل سنت کی کتابوں میں مختلف صورتوں میں نقل ہوا ہے اور یہ تمام صورتیں اس امر کی حکایت کرتی ہیں کہ خلیفہ دوم، مجنب کے بارے میں جس کے پاس پانی نہ تھا حکم الٰہی سے بے خبر تھے۔
قرآن مجید نے دو سوروں[12] میں ایسے شخص کا فریضہ بیان کیا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ قرآن مجید کی یہ دو آیتیں خلیفہ کے کانوں تک نہیں پہنچی تھیں!
ایسا شخص جو بارہ سال تک کوشش کے بعد صرف ’’سورہ بقرہ‘‘ یاد کرسکے اور اس کے شکرانے کے طور پر قربانی کرے،[13] بھلا وہ کس طرح ان آیات تک آسانی سے رسائی حاصل کرسکتا ہے؟!
دوسرا نمونہ
شکیات نماز کے احکام ایسے احکام ہیں جن کی ہر مسلمان کو ضرورت ہوتی ہے، بہت کم ایسے متدین افراد پیدا ہوں گے جو ان احکام سے آشنائی نہ رکھتے ہوں۔ اب ذرا دیکھئے کہ اس سلسلے میں خلیفہ کی معلومات کس سطح کی تھیں؟
ابن عباس کہتے ہیں: ایک دن عمر نے مجھ سے پوچھا: اگر ایک شخص اپنی نماز کی تعداد کے بارے میں شک کرے تو اس کا فریضہ کیا ہے؟ میں نے خلیفہ کو جواب دیا کہ: میں بھی اس مسئلے کے حکم سے واقف نہیں ہوں، اسی اثنا میں ’’عبد الرحمٰن بن عوف‘‘ آئے اور انہوں نے اس سلسلے میں رسول خدا کی ایک حدیث بیان کی۔[14]
شاید اس سلسلے میں ابن عباس کا جواب سنجیدہ نہ تھا، اور اگر رہا بھی ہو تو بھی خلیفہ کی ایسے موضوع کے سلسلے میں لاعلمی واقعاً حیرت انگیز ہے!!
تیسرا نمونہ
مستحب ہے کہ عورتوں کا مہر چار سو دینار سے زیادہ نہ ہو، حتی حدیث کی اصطلاح میں فقہا اسے ”مہر السنہ“ کہتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہر فرد اپنی شریک حیات کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے اس سے زیادہ مہر مقرر کرسکتا ہے۔
ایک دن خلیفہ نے منبر سے مہر زیادہ ہونے کے خلاف تنقید کی اور اس مخالفت کا اس حد تک اظہار کیا کہ اعلان کردیا کہ مہر کی زیادتی منع ہے۔ جب خلیفہ منبر سے نیچے اترے تو ایک عورت نے سامنے آکر ان سے سوال کیا: آپ نے عورتوں کے مہر میں اضافے پر پابندی کیوں لگا دی، کیا خدائے تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ نہیں فرمایا ہے:
’’وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا‘‘۔[15]
اور ایک کو بہت سا مال بھی دے چکے ہو (تو حرج نہیں ہے)۔
اس وقت خلیفہ نے اپنی غلطی کا احساس کیا اور بارگاہ الٰہی میں رخ کرکے کہا: ”خدایا! مجھے بخش دے اور اس کے بعد کہا: تمام لوگ احکام الٰہی کے بارے میں عمر سے زیادہ واقف ہیں۔ اس کے بعد دوبارہ منبر پر جاکر اپنی بات کی تردید کردی۔[16]
چوتھا نمونہ
شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جو یہ نہ جانتا ہو کہ الٰہی فرائض کی انجام دہی کے لئے عقل، طاقت اور بلوغ شرط ہے۔ اس کے باوجود، خلفائے ثلاثہ میں سے عمر کی خلافت کے زمانے میں ایک پاگل عورت کو بدکاری کے جرم میں خلیفہ کے حضور میں لایا گیا اور انہوں نے حکم صادر کردیا کہ اسے سنگسار کیا جائے۔ خوشبختی سے جب مأمور اسے سنگسار کرنے کے لئے لے جا رہے تھے،
حضرت علی (ع) سے ملاقات ہوگئی۔ امام جب حقیقت سے آگاہ ہوئے تو انہیں واپس لوٹنے کا حکم دیا۔ جب خلفیہ کے پاس پہنچے تو ان کی طرف رخ کرکے فرمایا: کیا تمہیں یاد نہیں ہے پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ہے: نابالغ اور پاگل سے فرائض معاف کردیئے گئے ہیں؟
اس پر عمر نے ایک تکبیر کہی اور اپنا حکم واپس لے لیا۔
اس قسم کے ناحق فیصلے خلفائے ثلاثہ کی زندگی کی تاریخ میں بہت ملتے ہیں۔ مرحوم علامہ امینی نے الغدیر کی چھٹی جلد میں احکام اسلام کے بارے میں خلیفہ کی لاعلمی کے سو واقعات مستند حوالوں کے ساتھ ذکر کئے ہیں۔ اور ان کا نام ”نوادر الاثر فی علم عمر“ رکھا ہے۔
ان امور کے جائزے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ، اسلامی معاشرے کی قیادت ہرگز ایسے فرد کے ہاتھوں میں نہیں دی جاسکتی، جو کتاب و سنت اور فقہ اسلامی کے سلسلے میں اتنا بھی نہیں جانتا ہو کہ دیوانے اور پاگل پر کوئی فریضہ عائد نہیں ہوتا۔
کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ لوگوں کی ناموس اور اسلامی سماج کی باگ ڈور ایک ایسے شخص کے ہاتھوں میں دے دی جائے جو عاقل اور دیوانے میں فرق نہ کرسکتا ہو؟
کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ خدائے عادل لوگوں کی جان و مال کو ایک ایسے شخص کے سپرد کردے جو یہ بھی نہ جانتا ہو کہ، عورت چھ ماہ میں بچے کو جنم دے سکتی ہے اور ایسی عورت پر بدکاری کی تہمت نہیں لگائی جاسکتی اور نہ اسے سنگسار کرنے کا حکم دیا جا سکتا ہے؟
عثمان کی، احکام دین سے لاعلمی کے نمونے
الٰہی احکام کے بارے میں خلفائے ثلاثہ میں سے، تیسرے خلیفہ کی معلومات بھی گزشتہ دو خلفاء سے زیادہ نہیں تھے۔
اسلام کے اصول و فروع کے سلسلے میں عثمان کی آگاہی بہت کم اور ناچیز تھی قارئین کرام کی آگاہی کے لئے اسلامی تعلیمات سے ان کی بے خبری کے سلسلے میں صرف ایک اشارے پر اکتفا کیا جاتا ہے:
اسلام کے واضح احکام میں سے ایک حکم یہ ہے کہ مسلمان اور کافر کا خون برابر نہیں ہے اور پیغمبر اسلام (ص) نے اس سلسلے میں فرمایا ہے:
”لا یقتل مسلم بکافرٍ“۔
کافر کو قتل کرنے پر مسلمان کو قتل نہیں کیا جاسکتا، بلکہ قاتل دیت (خون بہا) ادا کرے گا۔
لیکن افسوس ہے کہ خلفائے ثلاثہ میں سے جب خلیفہ سوم کی خلافت کے دوران جب ایک ایسا واقعہ پیش آیا تو خلیفہ نے قاتل کو قتل کرنے کا حکم صادر کردیا پھر بعض اصحاب رسول کی یاد دہانی پر اپنے حکم کو بدلا۔[17]
خلیفہ سوم کی زندگی میں ایسے بہت سے نمونے ملتے ہیں۔ بیان کو مختصر کرنے کیلئے ہم ان کی تفصیلات سے صرف نظر کرتے۔
نتیجہ
امت اسلامیہ کی مذہبی قیادت کے لئے الٰہی احکام سے متعلق وسیع علم اور معلومات کا مالک ہونا شرط ہے اور ایسا علم، عصمت یعنی گناہوں سے محفوظ رہے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ خلفائے ثلاثہ عصمت کی اس فضیلت سے محروم تھے۔ اور لوگوں نے اپنے غلط انتخاب سے خود کو اللہ کی نعمت یعنی امیرالمومنین حضرت علی (ع) کی امامت سے محروم کر لیا۔
حوالہ جات
[1]۔ سورہ حشر، آیت7۔
[2]۔ ابن حنبل، مسند احمد، ج1، ص2-14۔
[3]۔ سیوطی، تاریخ الخلفاء، ص59-66۔
[4]۔ امینی، الغدیر، ج7، ص108۔
[5]۔ حلبی، سیرہ حلبی، ج3، ص34؛ مجلسی، بحار الانوار، ج22، ص157۔
[6]۔ واقدی، المغازی، ج2، ص766؛ مجلسی، بحارالانوار، ج21، ص54۔
[7]۔ سورہ انعام، آیت164۔
[8]۔ أبو داود السجستاني، الزهد، ص55، ح31۔
[9]۔ مالک بن انس، موطأ مالک، ص335۔
[10]۔ بیھقی، السنن الكبری، ج8، ص273۔
[11]۔ ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، ج1، ص200۔
[12]۔ سورہ نساء، آیت43؛ سورہ مائدہ، آیت6۔
[13]۔ سیوطی، الدر المنثور، ج1، ص21۔
[14]۔ ابن حنبل، مسند احمد، ج1، ص192۔
[15]۔ سورہ نساء، آیت20۔
[16]۔ امینی، الغدیر، ج6، ص87 (اہل سنت کی مختلف اسناد سے منقول)۔
[17]۔ بیھقی، السنن الكبری، ج8، ص33۔
فہرست منابع
1۔ القرآن الکریم۔
2۔ ابن حنبل، احمد بن محمد، مسند أحمد بن حنبل، بیروت، مؤسسة الرسالة، ۱۴۱۶ھ ق۔
3۔ ابن ماجه، محمد بن یزید، سنن إبن ماجة، بیروت، دار المعرفة، ۱۴۱۹ھ ق۔
4۔ أبو داود السجستاني، سلیمان بن اشعث، کتاب الزهد، بیروت، دار المشكاة والتوزیع، ۱۹۹۳م۔
5۔ امینی، عبدالحسین، الغدیر في الکتاب و السنة و الأدب، تہران، دار الکتب الإسلامیة، ۱۳۶۶ھ ش۔
6۔ بیهقی، احمد بن حسین، السنن الكبری، بیروت، دار الکتب العلمية، ۱۴۲۴ھ ق۔
7۔ حلبی، علی بن ابراهیم، السيرة الحلبية، بیروت، دار الکتب العلمية، ۱۴۲۷ھ ق۔
8۔ سیوطی، عبدالرحمن بن ابیبکر، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، قاہرہ، مرکز هجر للبحوث و الدراسات العربیة و الاسلامیة، ۱۴۲۴ھ ق۔
9۔ سیوطی، عبدالرحمن بن ابیبکر، تاریخ الخلفاء، بیروت، دار صادر، ۱۴۱۷ھ ق۔
10۔ مالک بن انس، موطأ الإمام مالك، بیروت، دار احياء التراث العربي، ۱۴۰۶ھ ق۔
11۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار الجامعة لدُرر أخبار الأئمة الأطهار، بیروت، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۰۳ھ ق
12۔ واقدی، محمد بن عمر، المغازي، بیروت، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات، ۱۴۰۹ھ ق
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)
سبحانی، جعفر، امت کی رہبری؛ ترجمہ سید احتشام عباس زیدی، پندرہویں فصل، قم، مؤسسه امام صادق علیه السلام، ۱۳۷۶ھ ش۔