پیغمبر ﷺ کی بعثت سے پہلے جزیرہ نمائے عرب کی حالت انتہائی ابتر تھی۔ معاشرہ شدید انتشار کا شکار تھا، قبائل میں تقسیم لوگ باہم دست و گریبان تھے۔ معاشرتی اقدار پارہ پارہ ہو چکی تھیں۔ اس دور میں لوگ خود تراشیدہ بتوں کی پوجا کرتے اور معصوم بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔ عہد جاہلیت کے معاشرتى نظام میں عورت صرف ورثے سے ہى محروم نہیں رکھى جاتى تھى بلکہ خود اس کا شمار بھى اپنے باپ، شوہر یا بیٹے کى جائداد میں ہوتا تھا۔ یہ ایک تاریک دور تھا جہاں انسانی اقدار پامال ہو رہی تھیں اور اخلاقیات نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی تھی۔
عرب قبائل
عرب قوم، انفرادى زندگى کو اپنے استبدادى اور خود خواہ مزاج کے مطابق پاتے تھے چنانچہ انہوں نے جب بیابانوں میں زندگى کى مشکلات کا مقابلہ کیا تو یہ اندازہ لگایا کہ وہ تنہا رہ کر زندگى بسر نہیں کرسکتے اس بناء پر انہوں نے فیصلہ کیا کہ جن افراد کے ساتھ ان کا خونى اور نسلى یا سسرالى رشتہ دارى تھی، ان کے ساتھ مل کر اپنے گروہ کو تشکیل دیں جس کا نام انہوں نے ’’قبیلہ‘‘ رکھا۔ قبیلہ ایسى مستقل اکائی تھى جس کے ذریعے عہد جاہلیت میں عرب قومیت کى اساس و بنیاد، تشکیل پائی اور وہ ہر اعتبار سے خود کفیل ہوتى تھی۔
دور جاہلیت میں عربوں کے اقدار کا معیار قبائلى اقدار پر منحصر تھا ہر فرد کى قدر و منزلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا تھا کہ قبیلے میں اس کا کیا مقام و مرتبہ اور اہل قبیلہ میں اس کا کس حد تک اثر و رسوخ ہے یہى وجہ تھى کہ قدر و منزلت کے اعتبار سے سرداران قبائل کو بالا ترین مقام و مرتبہ حاصل تھا جبکہ اس کے مقابلے میں کنیزوں اور غلاموں کا شمار قبائل کے ادنى ترین افراد میں ہوتا تھا۔
دیگر قبائل کے مقابلے میں جس قبیلے کے افراد کى تعداد جتنى زیادہ ہوتى اس کى اتنى ہى زیادہ عزت اور احترام ہوتا تھا اور وہ قبیلہ اتنا ہى زیادہ فخر محسوس کرتا اس لئے ہر قبیلہ اپنى قدر و منزلت بڑھانے اور افراد کى تعداد کو زیادہ دکھانے کى غرض سے اپنے قبیلے کے مردوں کى قبروں کو بھى شامل اور شمار کرنے سے بھى دریغ نہ کرتا چنانچہ اس امر کى جانب قرآن نے اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا ہے: ’’أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ * حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ‘‘[1] ایک دوسرے پر فخر نے تمہیں غافل کر دیا ہے، یہاں تک کہ تم قبروں کے پاس تک جا پہنچے ہو۔
عرب معاشرتى نظام
عرب کے اکثر و بیشتر لوگ اپنے مشاغل کے تقاضوں کے باعث صحرا نشینى کى زندگى اختیار کئے ہوئے تھے۔ کل آبادى کا صرف چھٹا حصہ ایسا تھا جو شہروں میں آباد تھا، شہروں میں ان کے جمع ہونے کى وجہ یا تو اُن شہروں کا تقدس تھا یا یہ کہ ان میں تجارت ہوتى تھى چنانچہ مکہ کو دونوں ہى اعتبار سے اہمیت حاصل تھى۔
اس کے علاوہ شہروں میں آباد ہونے کى وجہ یہ بھى تھى کہ وہاں کى زمینیں سرسبز و شاداب تھیں اور ان کى ضروریات پورى کرنے کے لئے ان میں پانى کے علاوہ عمدہ چراگاہیں بھى موجود تھیں۔ یثرب، طائف، یمن، حیرہ، حضرموت، اور غسان کا شمار ایسے ہى شہروں میں ہوتا تھا۔
عرب کے بادیہ نشین (دیہاتى جنہیں بدو کہا جاتا ہے) اپنے خالص لب و لہجہ اور قومى عادت و خصلت کے اعتبار سے شہر نشین عربوں کے مقابل اچھے سمجھے جاتے تھے اسى لئے عرب کے شہرى اپنے بچوں کو چند سال کے لئے صحراؤں میں بھیجتے تھے تاکہ وہاں ان کى پرورش اسى ماحول اور اسى تہذیب و تمدن کے گہوارے میں ہوسکے۔
لیکن اس کے مقابلے میں شہروں میں آباد لوگوں کى سطح فکر زیادہ وسیع اور بلند تھى اور ایسے مسائل کے بارے میں ان کى واقفیت بھى زیادہ تھى جن کا تعلق قبیلے کے مسائل سے جدا اور ہٹ کر ہوتا تھا۔
جبکہ صحرا نشین لوگوں کو شہرى لوگوں کے مقابل زیادہ آزادى حاصل تھی۔ اپنے قبیلے کے مفادات کى خاطر ہر شخص کو یہ حق حاصل تھا کہ عملى طور پر وہ جو چاہے کرے اس معاملے میں اہل قبیلہ بھى اس کى مدد کرتے تھے اسى لئے دوسروں سے جنگ و جدال اور ان کے مال و دولت کى لوٹ مار ان کے درمیان ایک معمولى چیز بن گئی تھى۔ چنانچہ عربوں میں جنہوں نے شجاعت و بہادرى کے کارنامے سر انجام دیئے ہیں ان میں سے اکثر و بیشتر صحرا نشین ہى تھے۔
عربوں کا دین اور دینداری
زمانہ جاہلیت میں ملک عرب میں بت پرستى کا رواج عام تھا اور لوگ مختلف شکلوں میں اپنے بتوں کى پوجا کرتے تھے اس دور میں کعبہ مکمل طور پر بت خانے میں بدل چکا تھا جس میں انواع و اقسام اور مختلف شکل و صورت کے تین سو ساٹھ سے زیادہ بت رکھے ہوئے تھے اور کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس کا بت وہاں موجود نہ ہو۔ حج کے زمانے میں ہر قبیلے کے لوگ اپنے بت کے سامنے کھڑے ہوتے اس کى پوجا کرتے اور اس کو اچھے ناموں سے پکارتے نیز تلبیہ بھى کہتے تھے۔[2]
ظہور اسلام سے قبل یہودى اور عیسائی مذہب کے لوگ بھى جو اقلیت میں تھے جزیرہ نمائے عرب میں آباد تھے۔ یہودى اکثر و بیشتر خطہ عرب کے شمالى علاقوں مثلاً یثرب، وادى القری، تیمائ، خیبر اور فدک جیسے مقامات پر رہا کرتے تھے جبکہ عیسائی جنوبى علاقوں یعنى یمن اور نجران جیسى جگہوں پر بسے ہوئے تھے۔
انہى میں گنتى کے چند لوگ ایسے بھى تھے جو وحدانیت کے قائل اور خدا پرست تھے اور وہ خود کو حضرت ابراہیم (ع) کے دین کے پیروکار سمجھتے تھے۔ مؤرخین نے ان لوگوں کو ’’حُنَفاء‘‘ کے عنوان سے یاد کیا ہے۔[3]
بعثت رسول (ص) کے وقت عربوں کى مذہبى کیفیت کو حضرت على (ع) نے اس طرح بیان کیا ہے:
’’اس وقت اہل زمین متفرق مذاہب، منتشر خواہشات اور مختلف راستوں پر گامزن تھے۔ کوئی خدا کو مخلوقات کی شبیہ بتا رہا تھا۔ کوئی اس کے ناموں کو بگاڑ رہا تھا۔ اور کوئی دوسرے خدا کا اشارہ دے رہا تھا۔ مالک نے آپ (ص) کے ذریعے سب کو گمراہی سے ہدایت دی اور جہالت سے باہر نکال لیا‘‘[4]
بعض ملحد لوگ خدا کے علاوہ دوسرى اشیاء یعنى مادیات پر یقین رکھتے تھے (جس طرح دہریے تھے جو صرف طبیعت، زمانہ، حرکات فلکیہ اور مرور زمان ہى کو امور ہستى پر مؤثر سمجھتے تھے)۔[5]
جب ہم بت پرستوں کے مختلف عقائد کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان کا جائزہ لیتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انہیں اپنے بتوں سے ایسى زبردست عقیدت تھى کہ وہ ان کى ذرا سى بھى توہین برداشت نہیں کر سکتے تھے اسى لئے وہ حضرت ابوطالب (ع) کے پاس جاتے اور پیغمبر (ص) کى شکایت کرتے ہوئے کہتے کہ وہ ہمارے خداؤں کو برا کہہ رہے ہیں اور ہمارے دین و مذہب کى عیب جوئی کر رہے ہیں۔[6]
قرآن مجید نے مختلف آیات میں اس حقیقت کى جانب اشارہ کیا ہے۔ یہاں اس کے چند نمونے پیش کئے جاتے ہیں: ’’وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ‘‘[7] اور اگر آپ ان سے پوچھیں: آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا؟ تو وہ ضرور کہیں گے: اللہ نے۔
اس کے علاوہ وہ بت پرستى کى یہ بھى توجیہ پیش کرتے تھے کہ: ’’نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ‘‘[8] (ان کا کہنا ہے کہ) ہم انہیں صرف اس لیے پوجتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کا مقرب بنا دیں۔
دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہا کرتے تھے کہ:اور (پھر بھی) کہتے ہیں: ’’وَيَقُولُونَ هَٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّهِ‘‘[9] یہ اللہ کے پاس ہماری شفاعت کرنے والے ہیں۔
عرب تہذیب و ثقافت
زمانہ جاہلیت کے عرب ناخواندہ اور علم کى روشنى سے قطعى بے بہرہ تھے۔ ان کے اس جہل و ناخواندگى کے باعث ان کے پورے معاشرے پر جہالت اور خرافات سے اٹى بے ثقافتى حاکم تھى (وہ بے تہذیب لوگ تھے)۔ ان کى کثیر آبادى میں گنتى کے چند لوگ ہى ایسے تھے جو لکھنا اور پڑھنا جانتے تھے۔ بلاذرى لکھتا ہے کہ ظہور اسلام کے وقت قریش میں سے صرف سترہ افراد ایسے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔[10]
دور جاہلیت میں عرب تہذیب و تمدن کے نمایاں ترین مظہر حسب و نسب کى پہچان، شعر گوئی اور تقاریر میں خوش بیانى جیسے اوصاف تھے۔ چنانچہ عیش و عشرت کى محفل ہو، میدان کارزار ہو یا قبائلى فخر فروشى کا میدان غرض وہ ہرجگہ پر شعر گوئی یا جادو بیان تقاریر کا سہارا لیتے تھے۔
اس میں شک نہیں کہ اسلام سے قبل عربوں میں شجاعت، شیرین بیانی، فصاحت و بلاغت مہمان نوازی، لوگوں کى مدد اور آزادى پسندى جیسى عمدہ خصوصیات و صفات بھى موجود تھیں مگر ان کے رگ و پَے میں سرایت کر جانے والى قابل مذمت عادات و اطوار کے مقابلے میں ان کى یہ تمام خوبیاں بے حقیقت بن کر رہ گئی تھیں۔ اس کے علاوہ ان تمام خوبیوں اور ذاتى اوصاف کا اصل محرک، انسانى اقدار اور قابل تحسین باتیں نہ تھیں۔
زمانہ جاہلیت کے عرب طمع پرورى اور مادى چیزوں پر فریفتگى کا کامل نمونہ تھے۔ وہ ہر چیز کو مادى مفاد کے زاویے سے دیکھتے تھے۔ ان کى معاشرتى تہذیب بے راہروى، بد کردارى اور قتل و غارتگرى جیسے برے افعال و اعمال پر مبنى تھى اور یہى پست حیوانى صفات ان کى سرشت اور عادت و جبلت کا جزء بن گئی تھیں۔
دور جاہلیت میں عربوں کى ثقافت میں اخلاقیات کى توجیہ و تعبیر دوسرے انداز میں کى جاتى تھى۔ مثال کے طور پر غیرت، مروت اور شجاعت کى تعریف تو کرتے تھے مگر شجاعت سے ان کى مراد سفاکى اور دوسروں کے قتل و خونریزى کى زیادہ سے زیادہ طاقت ہوتى تھی۔ غیرت کا مفہوم ان کے تمدن میں لڑکیوں کو زندہ دفن کر دینا تھا۔ اور اپنے اس طریقہ عمل سے اپنى غیرت کى نمایاں ترین مثال پیش کرتے تھے۔ ایفائے عہد کا مطلب وہ یہ سمجھتے تھے کہ حلیف یا اپنے قبیلے کے افراد کى ہر صورت میں حمایت کریں چاہے وہ حق پر ہو یا باطل پر۔
عربوں کی توہم پرستى اور خرافات کى پیروی
طلوع اسلام کے وقت دنیا کى تمام اقوام کے عقائد میں کم و بیش خرافات، توہمات اور افسانے وغیرہ شامل تھے۔ اس زمانے میں یونانى اور ساسانى اقوام کا شمار دنیا کى سب سے زیادہ ترقى یافتہ اقوام میں ہوتا تھا۔ چنانچہ ان لوگوں کے اذہان اور افکار پر انہى کے قصوں کا غلبہ تھا۔
یہ بھى ایک حقیقت ہے کہ تہذیب و تمدن اور علم کے اعتبار سے جو بھى معاشرہ جس قدر پسماندہ ہوگا اس میں توہمات و خرافات کا اتنا ہى زیادہ رواج ہوگا۔ جزیرہ نمائے عرب میں توہمات اور خرافات کا رواج عام تھا ان کے بہت سے واقعات تاریخ نے اپنے سینے میں محفوظ کر رکھے ہیں۔ یہاں بطور مثال چند نمونے پیش کئے جاتے ہیں:
1: ایسى آنتوں اور ڈوریوں و غیرہ کو جنہیں کمانوں کى تانت بنانے کے کام میں لایا جاتا تھا لوگ اپنے اونٹوں اور گھوڑوں کى گردنوں نیز سروں پر لٹکا دیا کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ایسے ٹوٹکوں سے ان کے جانور بھوت پریت کے آسیب سے بچے رہتے ہیں اور انہیں کسى کى برى نظر بھى نہیں لگتى۔ نیز جنگ اور لوٹ مار کے موقع پر بلکہ ہر موقع پر انہیں دشمنوں کى گزند سے محفوظ رکھنے میں بھى یہ ٹوٹکے مؤثر ہیں۔[11]
2: خشک سالى کے زمانے میں بارش لانے کى غرض سے جزیرہ نمائے عرب کے بوڑھے اور کاہن لوگ ’’سَلَع‘‘ نامى درخت (جس کا پھل کڑوا ہوتا ہے) اور ’’عُشَر‘‘ نامى پیڑ (جس کى لکڑى جلدى جل جاتى ہے) کى لکڑیوں کو گائے کى دُموں اور پیروں میں باندھ دیتے اور انہیں پہاڑوں کى چوٹیوں تک ہانک کر لے جاتے۔ اس کے بعد وہ ان لکڑیوں کو آگ لگا دیتے۔ آگ کے شعلوں کى تاب نہ لاکر ان کى گائے ادھر ادھر بھاگنے لگتى اور سر مار مار کر ڈکرانا شروع کر دیتی۔ ان کے خیال میں ان گائیوں کے ڈکرانے اور بے قرارى سے پانى برسنے لگے گا۔
شاید اس گمان سے کہ جب بارش بھیجنے والا مؤکل یا خدا (ورشا دیوى یا جل دیوتا) ان گائیوں کو تڑپتا ہوا دیکھیں گے تو ان کى پاکیزگى اورتقدس کى خاطر جلد ہى بادلوں کو برسنے کے لئے بھیج دیں گے۔[12]
3: وہ مردوں کى قبروں کے پاس اونٹ نحر کر کے اسے گڑھے میں ڈال دیتے۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ ان کے اس کام سے صاحب قبر عزت و احترام کے ساتھ اونٹ پر سوار محشر میں وارد ہوگا۔[13]
عہد جاہلیت میں عورتوں کا مقام
دور جاہلیت کے عرب عورتوں کى قدر و منزلت کے ذرہ برابر بھى قائل نہ تھے۔ وہ ہر قسم کے انفرادى و اجتماعى حقوق سے محروم تھیں۔ اس عہد جاہلیت کے معاشرتى نظام میں عورت صرف ورثے سے ہى محروم نہیں رکھى جاتى تھى بلکہ خود اس کا شمار بھى اپنے باپ، شوہر یا بیٹے کى جائداد میں ہوتا تھا۔ چنانچہ مال و جائداد کى طرح اسے بھى ورثے اور ترکے میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔
عرب قحط سالى کے خوف یا اس خیال سے کہ لڑکیوں کا وجود ان کى ذات کے لئے باعث ننگ و عیب ہے انہیں پیدا ہوتے ہى زمین میں زندہ گاڑھ دیتے تھے۔ اپنى معصوم لڑکیوں سے انہوں نے جو غیر انسانى و ناروا سلوک اختیار کر رکھا تھا اس کى مذمت کرتے ہوئے قرآن مجید فرماتا ہے:
’’جب ان میں سے کسى کو بیٹى کے پیدا ہونے کى خبر دى جاتى ہے تویہ سنتے ہى اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ بس خون کا گھونٹ سا پى کر رہ جاتا ہے۔ لوگوں سے منہ چھپاتا پھرتا ہے کہ برى خبر کے بعد کیا کسى کو منہ دکھائے۔ سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹى کو لئے رہے یا مٹى میں دبا دے بے شک وہ لوگ بہت برا کرتے ہیں‘‘[14]
دوسرى آیت میں بھى قرآن مجید انہیں اس برى اور انسانیت سوز حرکت کے بدلے خداوند تعالى کى بارگاہ میں جوابدہ قرار دیتا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ * بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ‘‘[15] اور جب زندہ درگور لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ میں ماری گئی ؟
سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ تھى کہ ان کے درمیان شادى بیاہ کى ایسى رسومات رائج تھیں کہ ان کى کوئی خاص بنیاد نہ تھى وہ اپنى شادى کے لئے کسى معین حد کے قائل نہ تھے۔ مہر کى رقم ادا کرنے کى ذمہ دارى سے سبک دوش ہونے کے لئے وہ انہیں تکلیف اور اذیت دیتے تھے۔ کبھى وہ اپنى زوجہ پر بے عصمت ہونے کا ناروا الزام لگاتے تاکہ اس بہانے سے وہ مہر کى رقم ادا کرنے سے بچ جائیں۔ ان کا باپ اگر کسى بیوى کو طلاق دے دیتا، یا خود مر جاتا تو اس کى بیویوں سے شادى کر لینا ان کے لئے کوئی مشکل نہ تھا نہ ہى قابل اعتراض تھا۔
حرمت کے مہینے
دور جاہلیت کے تہذیب و تمدن میں ذى القعدہ، ذى الحجة، محرم اور رجب چار مہینے ایسے تھے جنہیں ماہ حرام سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ ان چار ماہ کے دوران ہر قسم کى جنگ و خونریزى ممنوع تھی۔ البتہ اس کے بدلے تجارت، میل ملاقات، مقامات مقدسہ کى زیارت اور دینى رسومات کى ادائیگى اپنے عروج پر ہوتى تھیں۔
اور چونکہ قمرى مہینے سال کے موسموں کے لحاظ سے آہستہ آہستہ بدلتے رہتے تھے اور بسا اوقات یہ موسم ان کى تجارت وغیرہ کے لئے سازگار اور مناسب نہ ہوتے اسى لئے وہ قابل احترام مہینوں میں تبدیلى کر لیا کرتے تھے۔ قرآن مجید نے انہیں ’’النَّسِيءُ‘‘ کے عنوان سے یاد کیا ہے۔ چنانچہ فرماتاہے: ’’إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِهِ‘‘ (حرمت کے مہینوں میں) تقدیم و تاخیر بے شک کفر میں اضافہ کرتا ہے جس سے کافروں کو گمراہ کیا جاتا ہے[16]
خاتمہ
پیغمبر ﷺ کی آمد سے قبل عرب معاشرہ جہالت اور برائیوں کے گہرے اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ لوگ شرک، ظلم اور اخلاقی پستی میں مبتلا تھے۔ عورتوں کو کوئی عزت و حقوق حاصل نہ تھے، بلکہ انہیں ذلت و حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اس دور کے لوگ اپنے خود ساختہ معبودوں سے بارش کی التجا کرتے وقت بے گناہ جانوروں کو تکلیف پہنچاتے۔ ظلم اور وحشت کا یہ عالم تھا کہ انسانیت شرم سے سر جھکا لیتی، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو مبعوث فرما کر تاریکیوں میں روشنی، ظلمت میں اجالا اور جہالت میں علم و حکمت کی کرن بکھیر دی۔
حوالہ جات
[1]۔ تکاثر: ۱-۲۔
[2]۔ یعقوبی، تاريخ اليعقوبي، ج۱، ص۲۵۵۔
[3]۔ آیتی، تاریخ پیا مبر اسلام، ص۱۳۔
[4]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ۱، ص۴۴، نسخہ، صبحى صالح۔
[5]۔ مزید عقائد کی معلومات کے لئے ملاحظہ ہو، ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ،ج۱،ص۱۱۷۔
[6]۔ ابوالشباب، السیرہ النبویہ، ج۱، ص۲۸۳- ۲۸۴۔
[7]۔ زمر: ۳۸۔
[8]۔ زمر: ۳۔
[9]۔ یونس: ۱۷۔
[10]۔ بلاذری، فتوح البلدان، ص۴۵۷۔
[11]۔ یحیی نوری، اسلام و عقائد وآراء بشرى، ص۴۹۱۔
[12]۔ ابن منظور، لسان العرب، ج ۹، ص ۱۶۱؛ یحیی نوری، اسلام و عقائد و آراء بشرى، ص۵۰۱۔
[13]۔ یحیی نوری، اسلام و عقائد و آراء بشرى، ص۵۰۹۔
[14]۔ یحیی نوری، اسلام و عقائد و آراء بشرى، ص۵۰۹۔
[15] تكوير: ۸-۹۔
[16]۔ توبہ: ۳۷۔
کتابیات
1۔ قرآن مجید۔
2۔ ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن ھبة اللہ، شرح نہج البلاغہ، قم، منشورات مکتبة آیة اللہ مرعشی، 1404ق۔
3۔ ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۰۸ق۔
4۔ ابوالشباب، احمد عوض، السیرة النبویة، بیروت، مؤسسة الرسالة، ۱۴۲۴ق۔
5۔ آیتی، محمدابراهیم، تاریخ پیامبر اسلام، تہران، دانشگاه تهران، ۱۳۶۹ش۔
6۔ شریف رضی، محمد بن حسین، نهج البلاغه، تہران،مطبوعات النجاح، ۱۴۰۲ق۔
7۔ طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان في تفسیر القرآن، بیروت، دار العلوم، 1426ق۔
8۔ فتوح البلدان، بلاذری، احمد بن یحیی، بیروت، دار الکتب العلمية، ۱۴۱۲ق۔
9۔ یحیی نوری، اسلام و عقائد و آراء بشری، نوید نور، ۱۳۸۵ش۔
10۔ یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاريخ اليعقوبي، بیروت، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات، ۱۴۱۳ق۔
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)
مرکز تحقیقات اسلامی، تاریخ اسلام (پیغمبر ﷺ کی زندگی) مترجم: معارف اسلام پبلشرز، ج۱، ص۲۱-31، نور مطاف، ۱۴۲۷ق۔