خلفائے راشدین کے دور میں مکتب تشیع کا تاریخی جائزہ

خلفائے راشدین کے دور میں مکتب تشیع کا تاریخی جائزہ

2025-10-02

8 بازدید

کپی کردن لینک

مکتب تشیع کی بنیاد خود رسول اکرم ﷺ کے دور میں رکھی گئی، جب آپؐ نے حضرت علیؑ کے پیروکاروں کو "شیعہ” کے لقب سے یاد کیا۔ خلفائے راشدین کے دور میں، یہ مکتب قیادت کے اختلافات اور سیاسی دباؤ کے باوجود اپنی علمی و فقہی شناخت کو مستحکم کرتا رہا اور اسلامی تاریخ میں ایک منفرد مقام حاصل کیا۔

خصوصیات مکتب تشیع عصر خلفاء میں

شیعہ پہلے تینوں خلیفہ ابوبکر، عمر و عثمان کے زمانے میں حسب ذیل خصوصیات کے حامل تھے:

(الف) شیعہ ان تین خلفاء کے دور میں سقیفہ کے ابتدائی دنوں کے علاوہ بہت زیادہ فشار میں نہیں تھے اگرچہ کہا جا سکتا ہے کہ بہت سے مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے افراد، شیعہ ہونے کی وجہ سے اہم منصبوں سے محروم تھے۔ جیسے ابو بکر نے پہلی بار خالد بن سعید کو شام کی جنگ کا سردار بنایا۔

عمر نے ان سے کہا: کیا آپ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ خالد نے بیعت نہیں کی ہے اور بنی ہاشم کے ساتھ اتحاد کرلیا ہے؟ اس وجہ سے ابو بکر نے خالد سے سرداری اور فرمان روائی کو واپس لے لیا اور خالد کی جگہ کسی اور کو معین کردیا۔[1]

(ب) سقیفہ بنی ساعدہ کے بعد مسلمانوں کی قیادت کا مسئلہ ایک بڑے انتشار کا سبب بنا۔ اس واقعے کے بعد مسلمان دو اہم گروہوں میں تقسیم ہو گئے: اہل سنت اور مکتب تشیع۔ اہل سنت علمی فقہی و اعتقادی مشکلات میں خلفاء زمانہ کی طرف اور شیعہ حضرت علی (ع) کی طرف رجوع کرتے تھے، مکتب تشیع اپنے علمی اور فقہی مشکلات بلکہ بطورکلی معارف اسلامی سے متعلق امور میں حضرت علی (ع) کی شہادت کے بعد ائمہ طاہرین (ع) کی طرف رجوع کرتے رہے۔ شیعہ و اہل سنت کے درمیان فقہ و حدیث و تفسیر کلام وغیرہ میں اختلاف کی وجہ یہی ہے کہ ان دونوں گروہوں کی دینی درسگاہ اورپناہ گاہ ایک دوسرے سے علیحدہ تھی۔

(ج) اسی طرح حضرت علی (ع) نے قانونی طور پر خلفاء وقت کے ساتھ فوجی اور سیاسی شعبہ میں عالم اسلام کی حفاظت اور مصلحت کی خاطر کافی حد تک طرفداری وحمایت کی۔ جیسے حضرت علی (ع) کی رائے ابو بکر کے لئے، فوج کو شام کی طرف بھیجنے کے بارے میں۔[2]

امام علیؑ کا اسلام کے لیے خلفاء کے ساتھ تعاون

جب خلیفہ دوم عمر بن خطاب نے رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے خود میدان جنگ میں جانے کا ارادہ کیا، تو انہوں نے امام علی (ع) سے مشورہ طلب کیا۔

تو آپ نے فرمایا: اگر آپ خود ان دشمنوں کے مقابلے میں جائیں گے تو مغلوب ہوجائیں گے اور مسلمانوں کے لئے کسی دور دراز شہر میں بھی کوئی پناہ گاہ نہیں ہوگی نیز آپ کے بعد کوئی نہیں ہے کہ جس کی طرف لوگ رجوع کریں، لہٰذا جنگ کے ماہر اور بہادرافراد کو ان کی طرف بھیجیں اور ایسے لوگوں کو بھیجیں جو سختی کو برداشت کر سکیں اور نصیحت کو قبول کریں۔
اگر خداوند متعال نے کامیاب و کامران کر دیا تو یہ وہی ہے کہ جس کی آپ،آرزو رکھتے ہیں اور اگر کوئی دوسرا واقعہ پیش آگیا توآپ مسلمانوں کے مددگار اور پناہ دینے والے ہوں گے۔[3]

اسی طرح، جب عمر نے ایرانیوں سے جنگ کرنے کے بارے میں حضرت علی (ع) سے مشورہ کیا۔

چند بزرگ شیعہ صحابہ نے بھی امام کی موافقت سے فوجی اور سیاسی منصوبوں کو قبول کرلیا تھا جیسے حضرت علی (ع) کے چچازاد بھائی فضل بن عباس جو سقیفہ میں حضرت علی (ع) کے مدافع تھے شام میں فوجی منصب پر فائز تھے اور ١٨ھ میں فلسطین میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔[4]

حذیفہ اور سلمان ترتیب وار مدائن کے حاکم تھے۔[5] عمار یاسر، سعد بن ابی وقاص کے بعد خلیفہ دوم کی طرف سے کوفہ کے حاکم ہوئے[6] ہاشم مرقال جو حضرت علی (ع) کے مخلص شیعوں میں تھے اور جنگ صفین میں علی کے لشکرمیں شہید ہوئے[7] تینوں خلفاء کے زمانے میں بڑے افسر تھے۔ انہوں نے ۲۲ھ میں آذربائیجان کو فتح کیا۔[8]

عثمان بن حنیف اور حذیفہ بن یمان، عمر کی طرف سے عراق کی زمین کی پیمائش پر مامور تھے[9] عبداللہ بن بدیل بن ورقہ خزاعی، شیعیان علی میں سے تھے جن کا بیٹا جنگ جمل میں سب سے پہلے شہید ہوا[10]، یہ فوجی افسروں میں سے تھا اور اس نے اصفہان اور ہمدان کو فتح کیا تھا۔[11]

اسی طرح سے دوسرے افراد بھی جیسے جریر بن عبد اللہ بجلی،[12] قرظہ بن کعب انصاری[13] یہ لوگ امیر المومنین کی خلافت میں اہم افراد شمار کئے جاتے تھے، جب کہ تینوں خلفاء کے زمانے میں ملکی اور لشکری عہدوں پر فائز تھے۔ جریر نے کوفہ کا علاقہ فتح کیا[14] اور زمانۂ عثمان میں ہمدان کے حاکم تھے [15] قرظہ بن کعب انصاری نے بھی عمر بن خطاب کے زمانے میں شہر ری کو فتح کیا۔[16]

عثمان کے قتل کے بعد شیعوں کا آشکارا ظہور

اگرچہ مکتب تشیع کی تاریخ پیغمبر (ص) کے زمانہ سے ہے، لیکن قتل عثمان کے بعد خلافت حضرت امام علی (ع) کے دور میں علی الاعلان اظہار ہوا۔ اس زمانہ میں صف بندی ہوئی اور پیروان علی (ع) نے آشکارا اپنے شیعہ ہونے کا اعلان کیا، شیخ مفید نقل کرتے ہیں کہ ایک جماعت حضرت علی (ع) کے پاس آئی اور کہا:

”اے امیر المومنین! ہم آپ کے شیعہ ہیں، حضرت نے ان کو غور سے دیکھا اور فرمایا: آخرمیں تمہارے اندر شیعہ ہونے کی علامت کیوں نہیں دیکھ رہا ہوں؟ اس جماعت نے کہا:اے امیرالمومنین (ع) شیعہ ہونے کی کیاعلامت ہونی چاہیے حضرت نے فرمایا:

راتوں میں کثرت عبادت سے ان کا رنگ زرد پڑ جائے،(خوف خدا میں) گریہ کرنے سے ان کی بینائی ضعیف ہوگئی ہو، مسلسل قیام عبادت سے ان کی کمر خمیدہ ہوگئی ہو اور ان کا پیٹ روزہ رکھنے کی وجہ سے پیٹھ سے لگ گیا ہو اور خضوع اور خشوع میں ڈوبے ہوئے ہوں۔[17]

اسی طرح بہت سے اشعار حضرت علی (ع) کی خلافت کے دور میں کہے گئے ہیں کہ جو امام (ع) کے بر حق نیز پیغمبر (ص) کے بعد پیغمبر (ص) کے جانشین اور بلا فصل خلیفہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، قیس بن سعد نے کہا:

و علی امامنا و امام / لسوانا اتیٰ به التنزیل[18]

علی (ع) ہمارے اور ہمارے علاوہ لوگوں کے امام ہیں اس بات کو قرآن نے بیان کیا ہے۔

خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین کہتے ہیں:

فدیت علیاً امام الوری / سراج البریّه مأوی التّقیٰ

میں علی (ع) پر قربان ہو جاؤں وہ لوگوں کے امام اور چراغ خلق اور متقین کی پناہ گاہ ہیں۔

وصی الرّسول وزوج البتول / امام البریّه شمس الضّحی

وہ پیغمبر (ص) کے وصی اورحضرت فاطمہ زہرا (س) کے شوہرنیز خلائق کے امام اور خورشید تاباں ہیں۔

تصدق خاتمه راکعا / فاحسن بفعل امام الوری

وہ امام خلق ہیں انہوں نے ہیں رکوع کی حالت میں اپنی انگوٹھی زکوٰة میں دے کر کتنا بڑا نیک کارنامہ انجام دیا

ففضّله اللّٰه رب العباد / و انزل فی شأنه هل اتی

اللہ نے ان کو دوسروں پر برتری عطا کی اور ان کی شان میں سورہ ہل اتیٰ نازل کیا۔

حضرت کے شیعوں نے بھی اپنے بعض اشعار میں خود کو علی (ع) کے دین پر ہونے کو ثابت کیا ہے عمار یاسر نے جنگ جمل میں عمرو بن یثربی کے سامنے یہ اشعار پڑھے:

لا تبرح العرصة یا ابن یثربی / حتی اقاتلک علی دین علی / نحن وبیت اللّه اولی بالنّبی

اے یثربی کے بیٹے! میدان سے فرار نہ کرناتاکہ میں دین علی (ع) کے دین پر رہ کر تجھ سے جنگ کروں، خانہ کعبہ کی قسم !ہم نبی کے حوالے سے تم سے اولیٰ ہیں۔

جیسا کہ عمر بن یثربی کہ جو دشمن علی (ع) تھا، محبان علی (ع) کو قتل کر کے افتخار کرتا تھا وہ شعر میں کہتاہے:

ان تنکرونی فانا ابن یثربی قاتل علبائ / و هند الجملی ثم ابن صوحان علی دین عل

اگر مجھے نہیں پہچانتے تو پہچان لو میں یثربی کا فرزند ہوں اورعلبا و ہند جملی کا قاتل ہوں (یہ دو لوگ علی کے دوستوں اور شیعوں میں سے تھے) اور میں نے علی (ع) کی دوستی کے جرم میں صوحان کے بیٹے کو بھی قتل کیا ہے۔[19]

 

خاتمہ

مکتب تشیع نے پہلے تین خلفاء کے دور میں اپنے عقیدے کو برقرار رکھا، اگرچہ بعض اوقات سیاسی اور سماجی محرومیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت علی (ع) کی خلافت کے دور میں مکتب تشیع نے واضح شکل اختیار کی اور مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنے عقیدے کا علانیہ اظہار کیا۔

 

حوالہ جات

[1]۔ ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص١٣٣۔

[2]۔ ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص١٣٣۔

[3]۔ سید رضی، نہج البلاغہ، خطبہ ١٣٤۔

[4]۔ ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص١٥١۔

[5]۔ مسعودی، مروج الذھب، ج٢، ص٣٢٣۔

[6]۔ ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص١٥٥۔

[7]۔ مسعودی، مروج الذھب، ج٢، ص٤٠١۔

[8]۔ ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص١٥٦۔

[9]۔ ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص١٥٢۔

[10]۔ شیخ مفید، الجمل، ص٣٤٢۔

[11]۔ ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص١٥٧۔

[12]۔ بلاذری، انساب الاشراف، ج٢، ص٢٧٥۔

[13]۔ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج٤، ص٢٠٢۔

[14]۔ ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص١٤٣۔

[15]۔ ابن قتیبہ، المعارف، ص٥٨٦۔

[16]۔ ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص١٥٧۔

[17]۔ شیخ مفید، ارشاد، ص ٢٢٧ و ٢٢٨۔

[18]۔ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج٣، ص٢٨۔

[19]۔ شیخ مفید، الجمل، ص٣٤٦۔

 

کتابیات

۱۔ سید رضی، محمد بن حسین، نهج البلاغه، ترجمه فیض الاسلام، تهران ایران، مؤسسه چاپ و نشر تألیفات فیض الاسلام، ۱۳۷۹ش۔

۲۔ ابن اثیر، عزالدین ابی الحسن علی بن ابی الکرم، اسد الغابه فی معرفة الصحابه، بیروت لبنان، داراحیاء التراث العربی، تاریخ ندارہ۔

۳۔ ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، قم ایران، مؤسسه انتشارات علامه، تاریخ ندارد۔

۴۔ ابن قتیبه، ابی محمد عبدالله بن مسلم، المعارف، قم ایران، منشورات الشریف الرضی، ۱۴۱۵ھ۔

۵۔ احمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، قم ایران، منشورات الشریف الرضی، ۱۴۱۴ھ۔

۶۔ بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، بیروت لبنان، منشورات مؤسسه الاعلمی للمطبوعات، ۱۹۷۴ء۔

۷۔ شیخ مفید، محمد بن محمد بن النعمان، ارشاد، ترجمه شیخ محمد باقر ساعدی خراسانی، تهران ایران، کتاب فروشی اسلامیة، ۱۳۷۶ش۔

۸۔ شیخ مفید، محمد بن محمد بن النعمان، الجمل، قم ایران، مکتب الاعلام الاسلامی و مرکز النشر، ۱۴۱۶ھ۔

۹۔ مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب و معادن الجوهر، بیروت لبنان، منشورات الاعلمی للمطبوعات، ۱۹۸۹ء۔

 

مضمون کا مأخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):

محرّمی، غلام حسن، تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک، ترجمہ سید نسیم رضا آصف، قم، مجمع جہانی اہل بیت (ع)، ١٤٢٩ھ ۔ ٢٠٠٨ء۔ (نسخہ اردو توسط شبکہ الامامین الحسنین)۔

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے