محکم اور متشابہ آیات مفسرین کے نظریات کا جائزہ

محکم اور متشابہ آیات مفسرین کے نظریات کا جائزہ

کپی کردن لینک

قرآن مجید، اللہ کی آخری اور جامع ترین کتاب ہدایت ہے، جس کی آیات اپنے مفاہیم کے اعتبار سے دو بنیادی اقسام پر مشتمل ہیں: محکم اور متشابہ۔ قرآن کی ان دو اقسام کا مفہوم اسلامی علوم، بالخصوص تفسیر اور اصولِ فقہ کے اہم ترین اور نازک ترین مباحث میں سے ایک رہا ہے۔ محکم اور متشابہ آیات کے سلسلے میں سورہ آل عمران کی آیت نمبر 7 میں اللہ تعالیٰ خود اس تقسیم کو بیان فرماتا ہے، جس نے اہل علم و فکر کو اس کی گہرائی میں غوطہ زنی کی دعوت دی ہے۔

علما و مفسرین کے درمیان محکم اور متشابہ کی تعریف اور ان سے استدلال کے طریقہ کار پر صدیوں سے بحث جاری ہے، یہاں تک کہ اس موضوع پر کئی مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔

محکم اور متشابہ کا مشہور نظریہ

مفسرین اور علمائے اسلام کے درمیان محکم اور متشابہ کے حوالے سے جو نظریہ سب سے زیادہ مشہور اور رائج رہا ہے، اس کی رو سے آیات کی تقسیم اس طرح ہے:

محکم آیات: یہ وہ آیات ہیں جن کا مفہوم بالکل واضح، روشن اور صاف ہے، اور ان کے معنی میں کسی قسم کے شک و شبہ یا ابہام کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ان کے مرادی معنی کے علاوہ کوئی دوسرا معنی سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ ان آیات کو "اُمُّ الکتاب” یعنی کتاب کی اصل اور بنیاد کہا گیا ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ان آیات پر ایمان لائیں اور ان کے احکامات پر عمل کریں۔

متشابہ آیات: یہ وہ آیات ہیں جن کا ظاہری مفہوم اللہ کی مراد نہیں ہوتا، اور ان کا حقیقی معنی، جسے "تاویل” کہا جاتا ہے، سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔ اس نظریے کے مطابق، انسانوں کے لیے ان آیات کی حقیقی مراد تک پہنچنے کا کوئی راستہ موجود نہیں۔ لہٰذا، ان آیات پر ایمان لانا تو واجب ہے، لیکن ان کی پیروی کرنے یا ان کے ظاہری مفہوم پر عمل کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

محکم اور متشابہ آیات کے سلسلے میں یہی وہ نظریہ ہے جو علمائے اہل سنت کے درمیان مشہور ہے اور شیعہ علما میں بھی کافی حد تک محکم اور متشابہ آیات کے بارے میں یہی نظریہ رائج ہے۔ اگرچہ، شیعہ مکتب فکر میں محکم اور متشابہ آیات کے سلسلے میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ ان کے نزدیک متشابہ آیات کی تاویل کا علم نبی اکرم (ص) اور ائمہ اہل بیت (ع) کو بھی حاصل ہے۔ عام مومنین چونکہ اس علم تک رسائی نہیں رکھتے، اس لیے انہیں اس کا علم اللہ، رسول (ص) اور ائمہ ہدیٰ (ع) کی طرف پلٹا دینا چاہیے۔

مشہور نظریے پر اعتراضات

اگرچہ مذکورہ بالا نظریہ محکم اور متشابہ آیات کے سلسلے میں عملی طور پر اکثر مفسرین کے ہاں قابلِ اعتماد رہا ہے، لیکن علامہ طباطبائی (رح) جیسے محققین کے نزدیک محکم اور متشابہ آیات کے سلسلے میں یہ نظریہ خود قرآن مجید کی روح اور دیگر آیات کی دلالت سے پوری طرح مطابقت نہیں رکھتا۔ اس نظریے پر چند بنیادی اعتراضات ہیں:

۱. قرآن میں کوئی بھی ناقابلِ فہم آیت موجود نہیں

یہ تصور کہ قرآن میں ایسی آیات موجود ہیں جن کے حقیقی معنی تک رسائی انسانی عقل کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہے، خود قرآن کے بیانات سے متصادم ہے۔ قرآن خود کو "نور” (روشنی)، "ھدیٰ” (ہدایت) اور "بیان” (واضح کرنے والی کتاب) جیسے اوصاف سے متصف کرتا ہے۔ یہ اوصاف اس بات سے میل نہیں کھاتے کہ کتابِ ہدایت کا ایک حصہ ایسا بھی ہو جو اپنی حقیقی مراد کو بیان کرنے سے قاصر ہو اور ہمیشہ کے لیے ایک ناقابلِ حل معمہ بنا رہے۔

مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں تدبر اور گہرے غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور اسے ہر قسم کے اختلاف کو دور کرنے کا ذریعہ قرار دیتا ہے: "أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا” "کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے”۔[1] اگر متشابہ آیات ایسی ہوں جن کا اختلاف کسی بھی قسم کے تدبر سے حل ہی نہ ہو سکتا ہو، تو پھر یہ آیت اپنا مفہوم کھو دیتی ہے۔

حروفِ مقطعات کا معاملہ: کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ متشابہ آیات سے مراد سورتوں کے آغاز میں آنے والے حروفِ مقطعات (جیسے الم، الر، حم) ہیں، جن کے حقیقی معنی تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں۔ لیکن یہ بات بھی درست نہیں، کیونکہ آیت میں متشابہ کا لفظ محکم کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ اس آیت کا بھی کوئی لفظی مدلول ہو، لیکن اس کا حقیقی مدلول کسی غیر حقیقی مدلول سے مشابہ ہو گیا ہو۔ حروفِ مقطعات کا اس طرح کا کوئی لغوی مدلول ہی نہیں ہوتا کہ ان میں اشتباہ پیدا ہو۔

اس کے علاوہ، آیت کا ظاہر یہ بتاتا ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں کجی (زیغ) ہوتی ہے، وہ متشابہ آیات کی پیروی کرکے فتنہ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاریخِ اسلام میں یہ نہیں سنا گیا کہ کسی نے صرف حروفِ مقطعات کی بنیاد پر کوئی بڑا فتنہ کھڑا کیا ہو یا گمراہی پھیلائی ہو۔ جو لوگ تاویل کا غلط استعمال کرتے ہیں، وہ پورے قرآن سے ایسا کرتے ہیں، نہ کہ صرف ان حروف سے۔

۲. "تاویل” کا غلط مفہوم

مشہور نظریے کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس میں لفظ "تاویل” کو "ظاہری معنی کے خلاف کوئی پوشیدہ معنی” سمجھ لیا گیا ہے، اور یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ تاویل صرف متشابہ آیات کی ہوتی ہے۔ یہ دونوں باتیں قرآنی اصطلاح کے مطابق درست نہیں۔ علامہ طباطبائی (رح) واضح کرتے ہیں کہ:

اولاً: "تاویل” قرآنی اصطلاح میں کسی لفظ کا لغوی معنی یا مدلول نہیں ہے، بلکہ یہ وہ حقیقی اور عینی وجود ہے جس کی طرف آیت اشارہ کر رہی ہوتی ہے۔ تاویل کا تعلق الفاظ سے نہیں، بلکہ ان حقائق سے ہے جو الفاظ کے ذریعے بیان کیے گئے ہیں۔

ثانیاً: تاویل صرف متشابہ آیات کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ قرآن کی تمام آیات، خواہ وہ محکم ہوں یا متشابہ، سب کی تاویل ہے۔

۳. محکم آیات کا "اُمُّ الکتاب” ہونا

سورہ آل عمران کی آیت میں محکم آیات کو "ھُنَّ اُمُّ الکتاب” (وہ کتاب کی اصل و بنیاد ہیں) کہا گیا ہے۔ "اُمّ” کا مطلب ہے اصل، جڑ اور وہ بنیاد جس کی طرف دوسری چیزیں پلٹتی ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ محکم آیات قرآن کے بنیادی اصول اور ماں کی حیثیت رکھتی ہیں، اور باقی آیات (یعنی متشابہ آیات) اپنے مفہوم میں ان کی طرف رجوع کرتی ہیں۔ یعنی متشابہ آیات کے معنی کو سمجھنے اور ان کے ابہام کو دور کرنے کے لیے انہیں محکم آیات کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔

اس بنا پر، قرآن میں کوئی بھی آیت ایسی نہیں ہے جس کی حقیقی مراد تک بالکل بھی رسائی ممکن نہ ہو۔ قرآنی آیات یا تو بلاواسطہ محکم ہیں (جیسے خود محکمات) یا بالواسطہ محکم ہیں (جیسے متشابہات، جنہیں محکمات کی طرف لوٹایا جاتا ہے)۔ رہی بات حروفِ مقطعات کی، تو چونکہ ان کا کوئی لغوی مدلول ہی نہیں، اس لیے وہ محکم اور متشابہ کی اس تقسیم سے ہی خارج ہیں۔ یہ نکتہ قرآن کی ان آیات سے بھی ثابت ہوتا ہے جو تمام قرآن میں تدبر کی دعوت دیتی ہیں، جیسے: "أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا"[2]۔

ائمہ اہل بیت (ع) کا طریقہ کار

ائمہ اہل بیت (ع) کے ارشادات سے محکم اور متشابہ کے بارے میں وہی نظریہ سامنے آتا ہے جس کی طرف علامہ طباطبائی (رح) نے رہنمائی کی ہے۔ محکم اور متشابہ آیات کے سلسلے میں ان تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن میں کوئی بھی آیت ایسی نہیں جس کا حقیقی مفہوم کسی بھی ذریعے سے سمجھا نہ جا سکے۔ اگر کوئی آیت اپنے مفہوم کو بیان کرنے میں مستقل بالذات نہ ہو، تو دیگر آیات کے ذریعے اس کے حقیقی مدلول تک پہنچا جا سکتا ہے، اور یہی متشابہ کو محکم کی طرف لوٹانے کا عمل ہے۔

مثال کے طور پر، آیت "الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى” "رحمن عرش پر مستقر ہوا”[3] یا آیت "وَجَاءَ رَبُّكَ” "اور تمہارا رب آیا”[4]، ظاہری طور پر اللہ کے لیے جسم اور مکانی حرکت کا تصور دیتی ہیں۔ لیکن جب ان آیات کو اس محکم آیت کی طرف لوٹایا جاتا ہے کہ "لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ” "اس کی مثل کوئی شے نہیں”[5]، تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ کے لیے "مستقر ہونے” اور "آنے” کا مفہوم وہ نہیں جو مخلوقات کے لیے ہوتا ہے، بلکہ اس کا مطلب وہ ہے جو اس کی شانِ ربوبیت کے لائق ہو، یعنی قدرت و غلبہ کا اظہار۔

محکم اور متشابہ آیات کے سلسلے میں چند اہم روایات ملاحظہ ہوں:

نبی اکرم (ص) نے قرآن کے وصف میں فرمایا: "قرآن اس لیے نازل نہیں ہوا کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تکذیب کرے، بلکہ وہ اس لیے نازل ہوا ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تصدیق کرے۔ لہٰذا، جو کچھ تم اس سے سمجھو، اس پر عمل کرو، اور جو تم پر متشابہ ہو جائے، اس پر (اس کے من جانب اللہ ہونے پر) ایمان لاؤ۔”[6]۔

امیر المومنین علی (ع) فرماتے ہیں: "قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصے کی گواہی دیتا ہے، اور اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کے ذریعے گویا ہوتا ہے۔”[7]۔ یہ قول اس اصول کی بنیاد ہے کہ قرآن کی بہترین تفسیر خود قرآن ہے۔

امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں: "محکم وہ ہے جس پر عمل کیا جا سکے، اور متشابہ وہ ہے جو اس شخص کے لیے مشتبہ ہو جو اس سے جاہل ہو۔”[8] اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ محکم اور متشابہ ہونا ایک اضافی امر ہے۔ ایک آیت جو ایک عالم کے لیے محکم ہو، وہ ایک جاہل کے لیے متشابہ ہو سکتی ہے۔

امام علی رضا (ع) کا فرمان محکم اور متشابہ آیات کے سلسلے میں سب سے واضح ہے: "جس نے قرآن کے متشابہ کو اس کے محکم کی طرف لوٹایا، وہ سیدھے راستے کی طرف ہدایت پا گیا۔” پھر آپ (ع) نے فرمایا: "یقیناً ہماری احادیث میں بھی قرآن کی طرح متشابہ موجود ہیں، لہٰذا ان کے متشابہ کو ان کے محکم کی طرف لوٹاؤ اور صرف متشابہ کی پیروی نہ کرو کہ گمراہ ہو جاؤ گے۔”[9]

محکم اور متشابہ آیات کے سلسلے میں یہ روایات، بالخصوص آخری روایت، اس بات میں بالکل صریح ہیں کہ متشابہ وہ آیت ہے جو اپنا مفہوم بیان کرنے میں مستقل نہیں ہوتی، لیکن جب اسے محکمات کی طرف لوٹایا جائے تو اس کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔ یہ اس نظریے کے بالکل برعکس ہے جو کہتا ہے کہ اس کے معنی جاننے کا کوئی راستہ ہی نہیں۔[10]

نتیجہ

قرآن مجید کی آیات محکم اور متشابہ کے حوالے سے اگرچہ مفسرین کے درمیان گہرے اختلافات موجود ہیں، لیکن اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ اللہ نے اپنی کتابِ ہدایت میں کوئی بھی چیز مبہم، بے معنی یا ناقابلِ رسائی بنا کر نازل نہیں فرمائی۔ ہر آیت کا ایک مقصد ہے اور اس کے مفہوم تک پہنچنے کا راستہ بھی موجود ہے۔

محکم اور متشابہ آیات کے سلسلے میں مشہور نظریہ، جو متشابہ آیات کے علم کو صرف اللہ تک محدود کر کے انسانی عقل کے لیے اس کے دروازے بند کر دیتا ہے، خود قرآن کی تعلیمات (جیسے تدبر اور قرآن کا نور ہونا) سے متصادم نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس محکم اور متشابہ آیات کے سلسلے میں، ائمہ اہل بیت (ع) کا پیش کردہ نظریہ قرآن کو ایک زندہ، متحرک اور باہم مربوط کلام کے طور پر پیش کرتا ہے، جس کا ہر حصہ دوسرے حصے کی تشریح کرتا ہے۔

محکم اور متشابہ آیات کے سلسلے میں اس نظریے کے مطابق، کوئی بھی آیت ناقابلِ فہم نہیں ہے۔ محکم آیات دین کی بنیاد اور اصول ہیں، جبکہ متشابہ آیات ان اصولوں کی روشنی میں سمجھی جاتی ہیں۔ محکم اور متشابہ آیات کے سلسلے میں یہ طریقۂ کار انسان کو ان لوگوں کی گمراہی سے بچاتا ہے جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے اور وہ متشابہ آیات کو ان کے اصل سیاق و سباق سے کاٹ کر فتنہ انگیزی کرتے ہیں۔ قرآن کو سمجھنے کا بہترین راستہ یہی ہے کہ قرآن کی تفسیر خود قرآن سے کی جائے، اور متشابہ کو محکم کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔

حوالہ جات

[1] سورہ نساء آیت ۸۲۔
[2] سورہ محمد آیت ۲۴۔
[3] سورہ طہ آیت ۵۔
[4] سورہ فجر آیت ۲۲۔
[5] سورہ شورى آیت 8۔
[6] سیوطی، الدر المنثور، ج ۲، ص ۶۔
[7] رضی، نہج البلاغہ، خطبہ ۱۳۱۔
[8] عیاشی، تفسیر عیاشی، ج۱، ص۱۶۲۔
[9] عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۲۹۰۔
[10] طباطبایى، قرآن در اسلام، ص۵۲-۵۷۔

فہرست منابع

1. قرآن کریم
2. عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر (تفسیر العیاشی)، محقق: رسولى، هاشم‏، تهران، مکتبه العلمیه الاسلامیه، چ۱، ۱۳۸۰ق.
3. شریف الرضی، نهج البلاغة، تحقیق عزیزالله عطاردی قوچانی، تهران، بنیاد نهج البلاغه، ۱۴۱۳ق.
4. شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضا علیه السلام، محقق / مصحح: لاجوردى، مهدى، تهران، نشر جهان، چ۱، ۱۳۷۸ق.‏
5. طباطبایى، محمدحسین، قرآن در اسلام، قم، بوستان کتاب، چ۳، ۱۳۸۸ش.
6. سیوطی، عبدالرحمن بن ابی بکر، الدر المنثور فى التفسیر بالماثور، قم، کتابخانه عمومى حضرت آیت الله العظمى مرعشى نجفى(ره)، چ۱، ۱۴۰۴ق.

مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)

طباطبایى، سید محمد حسین، قرآن در اسلام ، قم،  بوستان کتاب ، چ ۳، ۱۳۸۸ ش. (صفحہ 34)

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے