سقیفہ بنی ساعدہ کی عجیب منطق اور خلیفہ کا انتخاب

سقیفہ بنی ساعدہ کی عجیب منطق اور خلیفہ کا انتخاب

2025-01-28

10 بازدید

قرآن مجید اور تاریخ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ رسول (ص) کو اسلامی معاشرے کے مستقبل کے بارے میں بڑی تشویش تھی۔ جنگ احد کے واقعات نے آپ (ص) کے اس خوف کو مزید تقویت بخشی جب بہت سے مسلمانوں نے میدان جنگ چھوڑ کر فرار کا راستہ اختیار کرلیا۔ اور حقیقتاً یہ تشویش سقیفہ بنی ساعدہ کی صورت میں، تاریخ کے سیاہ اوراق میں درج بھی ہوچکی ہے۔

رہبری کا انتخاب اور اختلافات کی بنیادیں

بعض نے منافقین کے ساتھ مل کر دشمن سے صلح کرلی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ان لوگوں کا مذہبی عقیدہ اتنا کمزور اور متزلزل ہوا تھا کہ وہ خدا کے بارے میں بدگمان ہوکر جاہلانہ افکار کے مرتکب ہوگئے تھے۔ قرآن مجید نے اس راز کا یوں پردہ چاک کیا ہے:

”وَطَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِاللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ يَقُولُونَ هَل لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِن شَيْءٍ“[1]

اور ایک گروہ ایسا تھا کہ جسے صرف اپنی جانوں کی فکر تھی وہ اللہ کے ساتھ ناحق زمانۂ جاہلیت والے گمان کر رہا تھا وہ کہہ رہا تھا۔ کہ آیا اس معاملہ میں ہمیں بھی کچھ اختیار ہے؟

قرآن مجید ایک اور آیہ کریمہ میں اصحاب رسول خدا (ص) کے آپسی اختلافات کے بارے میں اشارتاً خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

”وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ“[2]

اور حضرت محمد (ص) نہیں ہیں مگر پیغمبر جن سے پہلے تمام پیغمبر گزر چکے ہیں تو کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا قتل کردیئے جائیں تو تم الٹے پاؤں (کفر کی طرف) پلٹ جاؤگے اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرے گا تو وہ ہرگز اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اور عنقریب خدا شکرگزار بندوں کو جزا دے گا۔

کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) ایک ایسی امت کو جو اختلاف و افتراق سے دو چار ہو، اپنے حال پر چھوڑ دیں اور ان کے لئے ایک امام و پیشوا اور حاکم مقرر نہ فرمائیں؟

پیغمبر اسلام (ص) جانتے تھے کہ آپ کی امت میں اختلاف و افتراق پایا جاتا ہے اور یہ امت بھی گزشتہ امتوں کی طرح مختلف گروہوں میں بٹ جائے گی، حتی آپ نے اپنی امت کے بارے میں پیشین گوئی کے ذریعہ فرمایا ہے:

سَتَفْتَرِقُ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، كُلُّهَا فِي النَّارِ، إِلَّا وَاحِدَةً

عنقریب میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی ان میں سے صرف ایک گروہ کے علاوہ باقی فرقے جہنمی ہوں گے“۔[3]

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے اطلاع و آگاہی رکھنے کے با وجود کہ امت کی رہبری کا انتخاب بہت سے اختلافات کا سد باب بن سکتا ہے کس طرح اس اہم امر کو ایک متلون مزاج جمعیت کے سپرد کیا، جس کے نتیجہ میں امت میں یہ وسیع اختلافات و شگاف پیدا ہوگیا؟!

سقیفہ بنی ساعدہ اور مختلف گروہوں کی تشکیل

اسلامی سماج، ان دنوں، مختلف گروہوں میں بٹ گیا تھا اور ہر گروہ ایک آرزو اور مقصد رکھتا تھا۔ انصار دو معروف گروہوں یعنی "اوس” و "خزرج” پر مشتمل تھے، اور مہاجر، ’’بنی ہاشم‘‘ اور ’’بنی امیہ‘‘ کے علاوہ قبائل "تیم” اور "عدی” پر مشتمل تھے۔ ہر گروہ چاہتا تھا کہ معاشرے کی قیادت اس کے ہاتھ میں آ جائے اور ان کے قبیلے کا سردار اس عہدے کا مالک بنے۔

پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت کے بعد مسلمانوں کی صفوں میں جو سب سے بڑی دراڑ پیدا ہوئی اور جس سے ان کے اتحاد و یکجہتی پر کاری ضرب لگی وہ اسلامی قیادت کے بارے میں اختلاف نظر کا سبب تھا۔ اگر مسلمان اس موضوع پر اختلاف و افتراق کے شکار نہ ہوتے تو بہت سے اختلافات قیادت کے مسئلے میں اتفاق نظر اور اتحاد کی وجہ سے حل ہوجاتے۔ لیکن اسی اہم اور بنیادی امر پر اختلاف ہی بعد والے اختلافات، جنگوں اور فتنوں کا سبب بنا۔ نتیجے کے طور پر امت مختلف گروہوں اور جماعتوں میں تقسیم ہوگئی اور بعض گروہ ایک دوسرے کی مخالفت اور ٹکراؤ پر اتر آئے۔

سقیفہ بنی ساعدہ اور قبائلی تعصبات

سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے گروہ کی سرگزشت کی تحقیقات اور مطالعہ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح اس دن پوشیدہ اسرار اور کینہ و عداوت سے پردے اٹھ گئے اور اصحاب رسول کی گفتگو میں ایک بار پھر قومی اور قبائلی تعصبات اور جاہلیت کے افکار رونما ہوئے اور واضح ہوگیا کہ اسلامی تربیت نے ابھی بہت سے اصحاب رسول (ص) کے دلوں کی گہرائیوں تک رسوخ نہیں کیا تھا اور اسلام، جاہلیت کے منحوس چہرے پر ایک نقاب کے علاوہ کچھ نہ تھا۔

سقیفہ بنی ساعدہ کے اس تاریخی واقعہ کے مطالعہ اور تحقیق سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ، اس سقیفہ بنی ساعدہ کا مقصد کیا تھا۔ جھگڑا و تقریروں، ایک دوسرے پر حملوں کا مقصد ذاتی منفعت طلبی اور سود جوئی کے سوا کچھ نہ تھا۔

ہر شخص خلافت کا لباس، شائستہ ترین شخص کو پہنانے کے بجائے اپنے بدن پر زیب تن کرنے کی کوشش میں تھا، اور جو موضوع اس مجلس میں زیر بحث نہ آیا وہ اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت عامہ یا اس منصب کے لئے ایک شائستہ ترین فرد کی تلاش کرنا تھا، جو عقل مندانہ تدبیر، وسیع علم، عظیم روح اور پسندیدہ اخلاق سے اسلام کی ڈوبتی کشتی کو ساحل تک پہنچانے میں قیادت کے فرائض انجام دیتا۔

حادثہ سقیفہ بنی ساعدہ کے مطالعہ و تجزیہ سے واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ سقیفہ بنی ساعدہ کے ہدایت کار اپنے اور اپنے منافع کے علاوہ کوئی اور فکر نہیں رکھتے تھے اور ہر شخص اپنا الو سیدھا کرنے کی فکر میں تھا۔

سقیفہ بنی ساعدہ اور تاریخی المیہ

پیغمبر اسلام (ص) کا جسد اطہر ابھی زمین پر تھا، بنی ہاشم اور آنحضرت (ص) کے بعض سچے اصحاب، پیغمبر اسلام (ص) کی تجہیز و تکفین کے مقدمات میں مصروف تھے کہ اچانک انصار کا گروہ پیغمبر اسلام (ص) کے گھر سے چند قدم کی دوری پر "سقیفہ بنی ساعدہ” نام کے ایک سائبان کے نیچے جمع ہوا تاکہ پیغمبر اکرم (ص) کا خلیفہ و جانشین مقرر کرے۔ گویا ان لوگوں کی نظر میں خلیفہ کا تقرر پیغمبر اسلام (ص) کی تجہیز و تکفین و تدفین سے انتہائی فوری اور اہم مسئلہ تھا!۔

جس وقت حضرت علی (ع)، بنی ہاشم اور مہاجرین کے ایک گروہ کے ہمراہ گھر کے اندر اور اس کے باہر پیغمبر اسلام (ص) کی نماز جنازہ اور تدفین کی تیاریوں میں مصروف تھے، اچانک عمر نے جو گھر کے باہر تھے، انصار کے سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہونے کی خبر سنی۔ کسی کے ذریعے فوراً ابوبکر کو اطلاع دی کہ جتنی جلد ہوسکے گھر سے باہر آئے۔

جب وہ بھی عمر کی طرح ماجرا سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے بھی سب کچھ چھوڑ کر سقیفہ بنی ساعدہ کی راہ لی۔ دونوں سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف چلے اور ابو عبیدہ ابن جراح کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ اب ذرا غور سے طرفین کے مناظرے اور استدلال کو سنیں کہ، یہ لوگ کس منطق کے تحت خود کو اور اپنے قبیلہ کو خلافت کے لئے دوسرے سے لائق و شائستہ سمجھتے تھے۔

سقیفہ بنی ساعدہ کے جلسہ میں انصار کے ترجمان ’’سعد بن عبادہ‘‘ اور ’’حباب بن منذر‘‘ تھے اور مہاجرین کی ترجمانی کا فریضہ ابوبکر، عمر اور ابو عبیدہ انجام دے رہے تھے۔ آخر میں انصار کی طرف سے بھی دو افراد نے سعد بن عبادہ کے کام میں روڑے اٹکا نے کے لئے تقریریں کیں۔ اب پورا قضیہ ملاحظہ ہو:

سعد (انصار سے مخاطب ہوکر): تم لوگ ایسی فضیلت اور برتری کے مالک ہو، کہ دوسرے اس سے محروم ہیں۔ پیغمبر گرامی (ص) نے سالہا سال اپنے لوگوں کو توحید کی دعوت دی، لیکن چند لوگوں کے علاوہ کوئی آپ پر ایمان نہ لایا اور وہ بھی آپ کا دفاع کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ لیکن تم لوگ انصار! آنحضرت (ص) پر ایمان لائے، آنحضرت اور آپ کے اصحاب کا دفاع کیا۔

آپ کے دشمنوں سے جنگ لڑی جس کے نتیجے میں لوگوں نے آپ کا دین قبول کیا۔ یہ تم لوگوں کی تلواریں تھیں جس کی وجہ سے عرب آنحضرت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوئے۔ جب پیغمبر اسلام (ص) اس دنیا سے رخصت ہوئے تو تم لوگوں سے راضی اور پرامید تھے۔ اس لحاظ سے ضروری ہے کہ امر خلافت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لو کیونکہ تم لوگ اس امر میں تمام لوگوں سے شائستہ اور بہتر ہو۔[4]

سقیفہ بنی ساعدہ اور مد مقابل مہاجرین کی منطق

ابوبکر: مہاجرین اولین گروہ ہیں جو دین پیغمبر (ص) پر ایمان لائے اور اس فضیلت پر افتخار کرتے ہیں۔ انہوں نے مشکلات اور سختیوں میں صبر و تحمل سے کام لیا ہے، افراد کی کمی پر نہیں ڈرے ہیں، دشمنوں کی اذیتوں کو برداشت کیا ہے اور آنحضرت پر ایمان اور آپ کے دین سے منہ نہیں موڑا۔

ہم، آپ، انصار کے فضائل اور خدمات سے ہرگز انکار نہیں کرتے اور بے شک مہاجرین کے بعد دیگر لوگوں پر آپ فضیلت اور برتری رکھتے ہیں۔ اس لئے قیادت و رہبری کی باگ ڈور مہاجرین کے ہاتھ اور وزارت آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہوگی اور ہم حاکم ہوں گے اور آپ وزیر اور کوئی بھی کام آپ لوگوں کے مشورے کے بغیر انجام نہیں پائے گا۔[5]

حباب بن منذر: اے جماعت انصار! حکومت کی باگ ڈور کو اپنے ہاتھ میں لے لو۔ دوسرے لوگ تمہاری ہی قدرت کے سائے میں زندگی بسر کرتے ہیں اور کوئی تمہارے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ تم لوگ صاحب قدرت ہو اور تعداد میں بھی زیادہ ہو۔ اپنی صفوں میں ہرگز اختلاف و تفرقہ پیدا نہ ہونے دو، اختلاف کی صورت میں تباہی اور بردباری کے سوا کوئی نتیجہ نہ ہوگا۔ اگر مہاجرین نے اقتدار پر قبضہ کرنے پر اصرار کیا تو ہم مسئلہ کو "دو امیر” کے طریقے سے حل کریں گے اور ایک قائد اور حاکم ہم میں سے اور ایک حاکم ان میں سے مقرر ہوگا۔

عمر: ایک غلاف میں ہرگز دو تلواریں نہیں سما سکتیں۔ خدا کی قسم عرب تم لوگوں کی فرما روائی کے سامنے ہرگز تسلیم نہیں ہوں گے کیونکہ ان کا پیغمبر (ص) آپ لوگوں میں سے نہیں ہے۔ لیکن اگر حکومت پیغمبر (ص) کے کسی رشتہ دار کے ہاتھ آئے تو عرب کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا۔ کس کی جرأت ہے کہ اس حکومت کے بارے میں ہمارا مقابلہ کرے اور ہم سے لڑے جس کی بنیاد حضرت محمد (ص) نے ڈالی ہے، جبکہ ہم آپ کے رشتہ دار ہیں۔

اس گفتگو میں عمر نے زمام حکومت کو ہاتھ میں لینے کا معیار پیغمبر (ص) کے ساتھ اپنی رشتہ داری اور قرابت کو قرار دیا اور اس طرح مہاجرین اور ان میں قبیلہ قریش کو خلافت کے لئے شائستہ و حقدار جتلایا ہے۔

"حباب بن منذر” نے ایک بار پھر انصار کی طاقت کا سہارا لیتے ہوئے کہا:

اے انصار کی جماعت! عمر اور اس کے ہم فکروں کی بات پر کان نہ دھرو وہ تم لوگوں سے قیادت اور فرما روائی چھیننا چاہتے ہیں۔ اگر انہوں نے ہماری بات نہ مانی تو ان سب کو اس سرزمین سے نکال باہر کرو۔ تم لوگ اس کام (فرما روائی) کے لئے دوسرے لوگوں سے زیادہ شائستہ ہو۔ تم ہی لوگوں کی تلواروں کی جھنکار کے نتیجہ میں لوگوں نے یہ دین قبول کیا ہے۔

عمر: خدا تجھے موت دے۔

حباب: خدا تجھے موت دے۔

ابو عبیدہ نے گویا انصار کو ایک رشوت دیتے ہوئے مہاجرین کو حکومت دیئے جانے کی یوں تائید کی: "اے انصار کی جماعت! تم لوگ وہ پہلے افراد تھے جنہوں نے پیغمبر اسلام (ص) کی حمایت اور مدد کی۔ اب یہ ہرگز سزاوار نہیں ہے کہ تم ہی لوگ سب سے پہلے پیغمبر کی سنت کو بھی بدل دو۔”

یہاں پر انصار میں سے سعد بن عبادہ (جو خلافت کے لئے انصار میں سے تقریباً آدھے لوگوں کا امیدوار تھا) کا چچیرا بھائی بشیر بن سعد، اٹھ کھڑا ہوا۔ امید تھی کہ وہ انصار کے حق میں بول کر قضیہ کو ختم کردے گا لیکن اس نے اس کے برعکس، سعد بن عبادہ کے ساتھ اپنی دیرینہ عداوت کی وجہ سے عمر کے استدلال کی تائید کی اور اپنے رشتہ داروں کی طرف مڑ کرکہا: "محمد قریش میں سے ہیں اور آپ کے رشتہ دار خلافت کے لئے دوسروں سے اولی اور شائستہ ہیں۔ میں یہ ہرگز نہیں دیکھنا چاہتا کہ آپ لوگ اس مسئلے میں ان سے ٹکرائیں۔”

طرفین نے اپنی اپنی بات سنا دی اور کوئی دوسرے کو مطمئن نہ کرسکا تو ابوبکر نے موقع سے فائدہ اٹھا تے ہوئے ایک تجربہ کار سیاست دان کی طرح ایک نئی تجویز پیش کی اور ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ دو آدمیوں کو پیش کرے تاکہ لوگ ان دونوں میں سے ایک کی بیعت کرلیں۔ خاص کر انہوں نے مشاہدہ کیا کہ انصار میں اتفاق رائے نہیں ہے اور بشیر بن سعد، سعد بن عبادہ (قبیلہ خزرج کے سردار) کا مخالف ہے۔

اس لئے ایک خاص انداز میں بحث و مباحثہ کو ختم کرتے ہوئے بولے: "میری درخواست ہے کہ مہربانی کرکے اختلاف و تفرقہ سے پرہیز کیجئے۔ میں آپ لوگوں کا خیر خواہ ہوں۔ بہتر ہے بات کو مختصر کیجئے اور عمرو بن عبیدہ میں سے کسی ایک کی بیعت کرلیجئے۔”

عمر اور ابو عبیدہ دونوں نے کہا: "ہمارے لئے ہرگز یہ مناسب نہیں ہے کہ آپ جیسی شخصیت کے ہوتے ہوئے حکومت و خلافت کی باگ ڈور ہم اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ مہاجرین میں سے کوئی بھی آپ کے برابر نہیں ہے۔ آپ غار ثور میں پیغمبر کے ہم نشین تھے، آپ نے پیغمبر کی جگہ پر نماز پڑھائی ہے اور آپ کی مالی حالت بھی بہتر ہے۔ اپنے ہاتھ کو آگے بڑھائے تاکہ ہم آپ کی بیعت کریں۔”

یہاں پر ابوبکر نے بلا کسی تکلف کے بغیر کچھ کہے اپنا ہاتھ پھیلا دیا اور دل میں موجود راز سے پردہ اٹھا دیا، اور یہ بات کھل گئی کہ عمر اور ابو عبیدہ کو آگے بڑھانے کا مقصد اپنے لئے راہ ہموار کرنے کے علاوہ کچھ اور نہ تھا۔

لیکن اس سے پہلے کہ عمر، ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کرے، بشیر بن سعد نے سبقت کی اور ابوبکر کے ہاتھ پر دوسروں سے پہلے بیعت کی۔ اس کے بعد عمر اور ابو عبیدہ نے بھی جانشین رسول کی حیثیت سے ابوبکر کی بیعت کی۔ اسی وقت گروہ انصار میں وہ گہری دراڑ پڑ گئی جس کا امکان بشیر کی تقریر کے بعد پیدا ہوچکا تھا۔ اس طرح انصار کی نا کامی قطعی ہوگئی۔

حباب بن منذر، بشیر کی بیعت (جو خود انصار میں سے تھا) پر آگ بگولا ہوگیا اور فریاد بلند کرتے ہوئے بولا: "بشیر! تم نے نمک حرامی کی اور اپنے چچیرے بہائی سے رشک کی بنا پر اسے حاکم بننے نہیں دیا۔”

بشیر نے کہا: "ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ خدا نے جو حق گروہ مہاجر کے لئے مخصوص کیا تھا، اس پر جھگڑا برپا کروں۔”

"اسید بن حضیر” قبیلہ اوس کا سردار جس کے دل میں ابھی بھی خزرج کے سردار کی طرف سے کینہ تھا، اٹھا اور اپنے قبیلہ سے مخاطب ہوکر بولا: "اٹھو اور ابوبکر کی بیعت کرو، کیونکہ اگر سعد حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لے گا تو قبیلہ خزرج ہم پر ایک قسم کی برتری پیدا کرلے گا۔” اس پر قبیلہ اوس نے بھی اپنے سردار کے حکم سے ابوبکر کی بیعت کرلی۔

اس موقع پر سیدھے سادھے لوگوں کی جماعت جن میں فکری شعور نہیں پایا جاتا اور جو اپنے سردار کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے ابوبکر کی بیعت کے لئے اس طرح آگے بڑھے کہ سعد قدموں تلے روند ڈالا گیا۔

ایک نامعلوم شخص نے پکارتے ہوئے کہا:

خزرج کا سردار پیروں تلے روند ڈالا گیا! اس کا خیال کرو!

لیکن عمر اس بے احترامی سے خوش ہوا اور کہا: "خدا اسے موت دے، کیونکہ ہمارے لئے ابوبکر کی بیعت سے بالاتر کوئی چیز نہیں ہے!”

خود عمر جب بعد میں سقیفہ بنی ساعدہ کا ماجرا بیان کرتا تھا تو ابوبکر کے حق میں اپنی بیعت کی وضاحت یوں کرتے تھے: "اگر ہم اس دن نتیجہ حاصل کئے بغیر جلسہ کو ترک کردیتے تو ممکن تھا ہمارے چلے جانے کے بعد انصار اتفاق رائے پیدا کرلیتے اور اپنے لئے کسی قائد کا انتخاب کرلیتے”۔

بالآخر سقیفہ بنی ساعدہ کا جلسہ بیان شدہ صورت میں خلافت کے لئے ابوبکر کے انتخاب کے اوپر ختم ہوا اور ابوبکر مسجد رسول کی طرف بڑھے جبکہ عمر، ابو عبیدہ اور قبیلہ اوس کا ایک گروہ انہیں اپنے درمیان میں لئے ہوئے تھا اور سعد بھی اپنے تمام ساتھیوں کے ہمراہ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔[6]

نتیجہ

پیغمبر (ص) کی وفات کے بعد، مدینے کے دو بڑے گروہ، مہاجرین اور انصار کے درمیان خلافت کے حصول کے لیے ایک شدید مقابلہ ہوا۔ اور ہر گروہ نے بیغمبر کی تجہیز و تدفین کو چھوڑ کر سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوگئے۔ اور اپنی عجیب منطقوں کے ذریعے دلیلیں پیش کیں۔ آخرکار، ابوبکر کو خلافت ملی اور انصار کو شکست ہوئی۔ یہ واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل ہے جس نے بعد میں مسلمانوں میں مختلف فرقوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔

حوالہ جات

[1]۔ سورہ آل عمران، آیت۱۵۴۔

[2]۔ سورہ آل عمران، آیت۱۴۴۔

[3]۔ ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب افتراق، ح۳۹۹۳۔

[4]۔ ابن‌قتیبه، الامامة و السیاسة، ج۱، ص۵۔

[5]۔ ابن‌قتیبه، الامامة و السیاسة، ج۱، ص۵۔

[6]۔ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج2، ص۲۲-۶۰۔

فہرست منابع

1۔ قرآن کریم۔

2۔ ابن ابی الحدید، عبد الحميد بن هبة الله، شرح نهج البلاغة، قم، مکتبة آیة الله العظمی المرعشي النجفي، ۱۳۶۳ھ ش۔

3۔ ابن ماجہ، أبو عبد الله محمد بن يزيد، سنن ابن ماجہ، بیروت، دار الرسالة العالمية، ١٤٣٠ھ ش۔

4۔ ابن‌قتیبه، عبدالله بن مسلم، الامامة و السیاسة، بیروت، دار الأضواء، ۱۴۱۰ھ ش۔

مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)

سبحانی، جعفر، امت کی رہبری؛ ترجمہ سید احتشام عباس زیدی، گیارہویں فصل، قم، مؤسسه امام صادق علیه السلام، ۱۳۷۶ھ ش۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے