حضرت على ابن ابی طالب (ع) ولادت سے ولایت تک

حضرت على ابن ابی طالب (ع) ولادت سے ولایت تک

2025-03-15

41 بازدید

مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب (ع) کی حیات طیبہ "اسلامی تاریخ” کا ایک درخشاں باب ہے، جو ان کی ولادت سے شروع ہوتی ہے اور ولایت و جانشینی کے اہم مراحل تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ تاریخی لمحات ان کی عظمت اور کردار کی عکاسی پیش کرتے ہیں، یہاں ان کے اہم ترین واقعات کا ایک مختصر خاکہ پیش کیا جا رہا ہے۔

حضرت على ابن ابی طالب (ع) کی ولادت اور بچپنہ

حضرت على ابن ابی طالب (ع) جمعہ کے دن 13 رجب 30 ھ ق عام الفيل (بعثت سے دس سال پہلے) خانہ خدا ميں پيدا ہوئے۔[1] ان کے پدر عالي قدر ”عمران” [2] ابن عبدالمطلب ابن ہاشم ابن عبد مناف تھے اور ان کى والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد ابن ہاشم ابن عبد مناف تھيں۔

حضرت على ابن ابی طالب (ع) نے چھ سال کى عمر تک اپنے والدين کے پاس زندگى گزارى اس کے بعد حضرت محمد ابن عبداللہ (ص) کى درخواست پر ان کے پاس چلے آئے اور آپ (ص) کے دامن تربيت ميں رہے۔[3]

حضرت على ابن ابی طالب (ع) اپنے اس زمانہ کے بارے ميں يوں فرماتے ہيں:

وَضَعنى فى حجْره وَ اَنا وَلَدٌ يَضُمُنى الى صَدْره وَ يَکنُفنُى فى فَراشه وَ يُمسُّنّى جَسَدَه وَ يُشمَنّى عَرْفَهُ و کانَ يَمْضَغْ الشيء ثمَّ يُلقمنيه … وَ لَقَد کنتُ أتَّبعُهُ أتَّبعُهُ إتّباع الفَضيل أثر اُمّه، يَرفَعُ لى فى کلّ يوم: من اخلاقه علماً و يا مُرنى بالاقتداء به، وَ لَقَدْ کان يُجاور فى کل سُنَة: بحراء فاراه و لا يراه غيري۔[4]

”بچپن ميں پيغمبر اکرم (ص) مجھے اپنى آغوش ميں ليتے اپنے سينہ سے لگاتے اور اپنى مخصوص آرامگاہ پر جگہ ديتے اپنا جسم اقدس ميرے جسم سے مس کرتے اور اپنى خوشبو سے ميرے مشام جاں کو معطر فرماتے غذا چبا کر ميرے منہ ميں رکھتے۔”

ميں رسول خدا (ص) کى اس طرح پيروى کرتا تھا کہ جيسے (اونٹ کا) شير خوار بچہ اپنى ماں کے پيچھے پيچھے چلتا ہے. آنحضرت (ص) ہر روز ميرے لئے اپنے اخلاق کا عَلَم بلند کرتے تھے اور مجھے حکم ديتے تھے کہ ميں ان کے کردار کى پيروى کروں۔ آپ (ص) ہر سال ”غار حرا” ميں تشريف لے جاتے تھے اور اس وقت ميرے علاوہ آپ (ص) کو، کوئي ديکھ نہيں پاتا تھا۔

خورشيد رسالت کا اعلى کردار، حسن رفتار، عدالت پسندى، انسان دوستى اور خدا پرستى حضرت على ابن ابی طالب (ع) کى انفرادى اور اجتماعى زندگى کے خطوط معين کرنے کے لئے بہترين نمونہ اور سرمشق عمل ہے۔

سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے

حضرت على ابن ابی طالب (ع) ابھى نوجوان تھے اور آپ (ع) کا سن دس سال سے زيادہ نہيں ہوا تھا ليکن پھر بھى آپ (ع) کى فکر اور آگاہى اتنى تھى کہ جب حضرت محمد مصطفى (ص) نے اپنى پيغمبرى کا اعلان فرمايا تو آپ (ع) نے سب سے پہلے ايمان کا اعلان فرمايا۔[5]  اس سلسلہ ميں آپ (ع) فرماتے ہيں:

ولم يجمع بيت واحد يومئذ في الإسلام غير رسول الله (صلى الله عليه وآله) و خديجة و أنا ثالثهما؛ أرى نور الوحي و الرسالة، و أشم ريح النبوة.[6]

”اس زمانہ ميں جب اسلام کسى گھر ميں نہيں پہونچا تھا۔ فقط پيغمبر اکرم (ص) اور حضرت خديجہ مسلمان تھيں اور تيسرا ميں مسلمان تھا۔ ميں نور وحى کو ديکھتا اور نبوت کى خوشبو سونگھتا تھا۔”

جب وَ أَنذِرۡ عَشِيرَتَكَ ٱلۡأَقۡرَبِينَ.[7] نازل ہوئي تو حضرت على ابن ابی طالب (ع) نے پيغمبر اکرم (ص) کے فرمان کے مطابق اپنے رشتہ داروں ميں سے چاليس افراد کو منجملہ اپنے چچا ابولہب، عباس اور حمزہ و غيرہ کو مہمان بلايا۔ رسول اکرم (ص) نے کھانے پينے کے بعد فرمايا:

”اے فرزندان عبدالمطلب ميں جو چيز تمہارے لئے لايا ہوں مجھے نہيں معلوم کہ عرب کے جوانوں ميں سے کوئي بھى اس سے بہتر چيز تمہارے لئے لايا ہو۔ ميں تمہارے لئے دنيا و آخرت کى بھلائي نيز خير و سعادت کا تحفہ لايا ہوں۔ خدا نے حکم ديا ہے کہ ميں تم کو اس کى طرف بلاؤں تم ميں سے کون ہے جو اس راستہ ميں ميرى مدد کرے تا کہ وہى ميرا بھائي، ميرا وصى اور ميرا جانشين قرار پائے؟”

رسول اکرم (ص) نے تين بار يہ بات دہرائي اور ہر بار تنہا حضرت على ابن ابی طالب (ع) ہى کھڑے ہوئے اور انہوں نے اسى امر ميں اپنى آمادگى کا اعلان فرمايا۔

پھر آنحضرت (ص) نے فرمايا:

”يہ (على ابن ابی طالب علیہ السلام) ہى ميرے بھائي، ميرے وصى اور ميرے جانشين ہيں ان کى باتوں کو سنو اور ان کى اطاعت کرو۔”[8]

حضرت على ابن ابی طالب (ع) نے مکہ کى پورى تيرہ سالہ زندگى رسول اکرم (ص) کى خدمت ميں گزارى اور وحى الہى کو مکتوب فرماتے رہے۔

بستر رسول (ص) پر

اظہار اسلام کى بنا پر قريش کے سر برآوردہ افراد نے اپنى تسلّط طلب خواہشوں کى راہ ميں وجود پيغمبر اکرم (ص) کو خطرناک تصور کيا۔ اسى وجہ سے ”دار الندوة” ميں جمع ہوئے اور رسول خدا (ص) سے برسر پيکار ہونے کے لئے آپس ميں مشورہ کرنے لگے۔

آخر ميں يہ طے پايا کہ ہر قبيلہ سے ايک ايک آدمى چنا جائے تا کہ رات کو پيغمبر اکرم (ص) کے گھر پر حملہ کيا جائے اور سب مل کر ان کو قتل کرديں۔ پيغمبر اکرم (ص) وحى الہى کے ذريعے ان سازشوں سے آگاہ ہوگئے اور يہ حکم ملا کہ راتوں رات مکہ کى طرف ہجرت کرجائيں۔[9]

آپ (ص) نے حضرت على ابن ابی طالب (ع) سے فرمايا: کہ ”آپ (ع) ميرے بستر پر اس طرح سو جاؤ کہ کسى کو يہ معلوم نہ ہونے پائے کہ پيغمبر اکرم (ص) کى جگہ کون سو رہا ہے.”

حضرت على ابن ابی طالب (ع) کى يہ فدا کارى اتنى اہميت اور قدر و منزلت کى حامل تھى کہ مختلف روايات[10] کى بنا پر خدا نے يہاں پر يہ آيت نازل کى:

وَ مِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَ اللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ.[11]

”لوگوں ميں سے کچھ ايسے ہيں جو رضائے خدا کى راہ ميں اپنا نفس بيچ ديتے ہيں اور خدا، اپنے بندوں پر مہربان ہے۔”

پيغمبر (ص) کے امين

پيغمبر اکرم (ص) کو جب ہجرت کا حکم ملا تو آپ (ص) نے اپنے خاندان کے افراد اور قبيلہ کے درميان حضرت على ابن ابی طالب (ع) سے زيادہ کسى کو امانت دار نہيں پايا۔ اسى وجہ سے آپ (ص) نے ان کو اپنا جانشين بنايا تا کہ وہ لوگوں کى امانتيں ان تک پہنچا ديں، آپ (ص) کا قرض ادا کريں اور آپ (ص) کى دختر حضرت فاطمہ زہراء (ع) اور دوسرى عورتوں کو مدينہ پہنچا ديں۔

حضرت على ابن ابی طالب (ع)، پيغمبر اکرم (ص) کے حکم پر عمل کرنے کے بعد، اپنى والدہ گرامى جناب فاطمہ بنت اسد، بنت رسول (ص) حضرت فاطمہ زہراء (ع)، زبير کى بيٹى فاطمہ اور کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ مدينہ روانہ ہوئے اور مقام ”قبا”[12] ميں پيغمبر اکرم (ص) سے جاملے۔[13]

راہ خدا ميں جہاد

رسول خدا (ص) کے مدينہ ہجرت کرنے کے بعد راہ حق ميں اپنى جان کى بازى لگانے والوں اور جان کى پروا، نہ کرنے والوں ميں پيغمبر اکرم (ص) کے اصحاب کے درميان حضرت على ابن ابی طالب (ع) بے نظير تھے۔ آپ (ع) غزوہ تبوک کے علاوہ کہ جس ميں آپ حضرت على ابن ابی طالب (ع) پيغمبر اکرم (ص) کے حکم سے مدينہ ميں رک گئے تھے۔ تمام غزوات ميں موجود رہے۔ اور زيادہ تر آپ (ع) کى فدا کارى و ايثار کے سبب، لشکر اسلام نے لشکر کفر و شرک پر غلبہ حاصل کيا۔

حضرت على ابن ابی طالب (ع) نے ہميشہ اپنے دشمن و مد مقابل کو شکست دى اور کبھى بھى دشمن کو پيٹھ نہيں دکھائي اور فرمايا کہ اگر تمام عرب ايک کے پيچھے ایک مجھ سے لڑيں تو ميں اس جنگ ميں پيٹھ پھيرنے والا نہيں ہوں۔[14]

بلا خوف و ترديد يہ بات کہى جا سکتى ہے کہ اگر اس جانباز اسلام کى جانبازياں اور فداکارياں نہ ہوتيں تو بعيد نہيں تھا کہ بدر، احد، خندق اور خيبر … يا کسى بھى جنگ ميں کفار و مشرکين، چراغ رسالت کو با آسانى گل کر کے پرچم حق کو سرنگوں کر ديتے۔

اس مقام پر حضرت على ابن ابی طالب (ع) کى جنگ خندق و خيبر کے دو ميدانوں کى فداکاريوں کو بيان کرتے ہوئے اب ہم آگے بڑھيں گے۔

1۔ اسلام دشمن مختلف گروہوں نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملا ليا تا کہ يک بيک مدينہ پر حملہ کر کے اسلام کو ختم کر ديں پيغمبر اسلام (ص) نے جناب سلمان فارسى کى پيشکش پر حکم ديا کہ مدينہ کى ان اطراف ميں خندق کھود دى جائے کہ جہاں سے دشمن کے داخل ہونے کا خطرہ ہے۔

خندق کے دونوں طرف دونوں لشکر ٹھہرے ہوئے تھے، کہ عرب کا نامى گرامى جنگجو ”عمرو بن عبدود” دشمن کے لشکر سے خندق کو پار کر کے رجز پڑھتا اور مبارزہ طلبى کرتا ہوا آيا۔

حضرت على ابن ابی طالب (ع) نے قدم آگے بڑھائے دونوں ميں گفتگو کے بعد ”عمرو” گھوڑے سے اتر پڑا اور اس نے گھوڑے کو پے کر ديا، تلوار لے کر حضرت على ابن ابی طالب (ع) پر حملہ آور ہوا تو امام (ع) نے دشمن کے وار کو اپنى ڈھال پر روکا اور اس کے بعد آپ (ع) نے ایک ضرب سے اس کو زمين پر گرا ديا پھر قتل کر ڈالا۔

”عمرو” کے ساتھيوں نے جب يہ منظر ديکھا تو وہ ميدان سے بھاگ کھڑے ہوئے اور جو رہ گئے وہ حضرت على ابن ابی طالب (ع) کى تلوار ذوالفقار کے لقمہ بن گئے۔[15] جب حضرت على ابن ابی طالب (ع) فاتحانہ واپس آئے تو پيغمبر اکرم (ص) نے ان سے فرمايا: ”اگر تمہارى آج کى جنگ کو امت اسلام کے تمام پسنديدہ اعمال سے تولا جائے تو تمہارا يہ عمل سب سے برتر ہے۔”[16]

2۔ پيغمبر اکرم (ص) نے يہوديوں کے مرکز، خيبر کا محاصرہ کيا اس غزوہ ميں آنکھوں کے درد کے سبب حضرت على ابن ابی طالب (ع) جنگ ميں شامل نہ تھے۔ رسول اکرم (ص) نے دو مسلمانوں کو پرچم ديا اور وہ دونوں ہى کاميابى حاصل کرنے سے پہلے ہى واپس آگئے، پيغمبر اکرم (ص) نے فرمايا: ”پرچم ان کا حق نہيں تھا على (ع) کو بلاؤ” لوگوں نے عرض کيا کہ ”ان کى آنکھوں ميں درد ہے۔” آپ (ص) نے فرمايا: ”ان کو بلا لاؤ وہ، وہ ہيں جن کو خدا اور اس کا رسول (ص) دوست رکھتا ہے اور وہ بھى خدا اور اس کے رسول (ص) کو دوست رکھتے ہيں …”

جب حضرت على ابن ابی طالب (ع) تشريف لائے تو پيغمبر اکرم (ص) نے فرمايا: ”علي (ع) کيا تکليف ہے؟” تو حضرت على ابن ابی طالب (ع) نے کہا: ”آنکھوں ميں تکليف ہے۔”

اس وقت رسول اکرم (ص) نے ان کے لئے دعا فرمائي اور ان کى آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگايا۔ کہ جس سے حضرت على ابن ابی طالب (ع) کى آنکھوں کا درد ختم ہوگيا، جب حضرت علي ابن ابی طالب (ع) نے سفيد پرچم لہرايا تو پيغمبر اکرم (ص) نے ان سے فرمايا: ”جبرئيل تمہارے ساتھ ہيں اور کاميابى تمہارے آگے آگے ہے، خدا نے ان لوگوں کے دلوں ميں خوف و ہراس ڈال ديا ہے …”

حضرت على ابن ابی طالب (ع) ميدان ميں گئے تو سب سے پہلے مرحب سے سامنا ہوا کچھ باتيں ہوئيں اور آخر کار اس کو زمين پر گرا ديا۔ يہودى قلعہ کے اندر چھپ گئے اور دروازہ بند کر ليا۔ امام (ع) دروازہ کے پيچھے آئے اور جس دروازہ کو بيس آدمى بند کرتے تھے اس کو اکيلے کھولا اور اس کو اپنى جگہ سے اکھاڑا اور يہوديوں کى خندق پر ڈال ديا يہاں تک کہ مسلمان اس کے اوپر سے گزر کر کامياب ہوئے۔[17]

 پيغمبر (ص) کى جانشيني

پيغمبر اکرم (ص) نے اپنے بعد، مسلمانوں کے امور کى سرپرستى اور ولايت کے مسئلہ ميں صرف اپنى پوشيدہ دعوت اور اعلان پر ہى اکتفا نہيں کيا تھا بلکہ جس طرح کہ ہم ذکر کرچکے ہيں کہ آپ (ص) نے دعوت اور تبليغ کے پہلے ہى دن سے مسئلہ ولايت کو توحيد و نبوت کے ساتھ صريحاً بيان فرما ديا تھا۔ اور پھر خصوصيات و فضائل کے مجموعہ حضرت على ابن ابی طالب (ع) کے لئے آپ (ص) کے پاس، خدا کا يہ فرمان موجود تھا کہ دين و دنيا کے امور ميں علي (ع) کى ولايت و سرپرستى اور اپنے بعد ان کى خلافت و جانشينى کا اعلان فرما ديں۔

رسول اکرم (ص) نے اس کام کو مختلف مواقع پر منجملہ ”غدير خم” ميں انجام ديا۔ آنحضرت (ص) نے 10 ہجری فريضہ حج کى انجام دہى کے لئے مکہ کا قصد فرمايا، مورخين نے اس سفر ميں پيغمبر اکرم (ص) کے ساتھيوں کى تعداد ایک لاکھ چوبيس ہزار لکھى ہے۔[18]

حج سے واپسى پر 18 ذى الحجہ کو صحراء جحفہ کى ”غدير خم” نامى جگہ پر پہنچے۔ منادى نے پيغمبر اکرم (ص) کے حکم کے مطابق اعلان کيا ”الصلوة جامعة” سب لوگ رسول اکرم (ص) کے گرد جمع ہوگئے۔ اونٹوں کے پالانوں سے ایک بلند جگہ منبر بنايا گيا اور پيغمبر اکرم (ص) اس پر تشريف لے گئے، حمد خدا اور مفصل خطبہ کے بعد آپ (ص) نے فرمايا: اے لوگو مؤمنين پر ولايت و سرپرستى کا زيادہ حق کون رکھتا ہے؟

تو لوگوں نے کہا: خدا اور اس کا پيغمبر (ص) زيادہ بہتر جانتے ہيں تو آپ (ص) نے فرمايا: ميرا ولى خدا ہے اور ميں مؤمنين پر خود ان کے نفسوں سے زيادہ حق رکھتا ہوں اور پھر فرمايا: مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا عَلِيٌّ مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ۔[19] جس کا ميں سرپرست و ولى ہوں يہ علي (ع) بھى اس کے سرپرست و ولى ہيں خدايا ان کے دوستوں کو دوست رکھ اور ان کے دشمنوں کو دشمن قرار دے۔

ابھى لوگ پراکندہ نہيں ہوئے تھے کہ يہ آيت نازل ہوئي: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينا۔[20]

”آج تمہارے دين کو ميں نے کامل کر ديا اور اپنى نعمتيں تم پر تمام کر ديں، اور تمہارے لئے دين اسلام کو پسند کرليا۔”

 

خاتمہ

حضرت على ابن ابی طالب (ع) کی زندگی کے واقعات ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ انسانی زندگی میں علم، صداقت، امانت، عدالت، شجاعت اور فداکاری کا فروغ کتنا اہم ہے۔ حضرت على ابن ابی طالب (ع) کی زندگی کی مثالیں آج بھی مسلمانوں کے لئے رہنمائی کا ذریعہ ہیں اور آپ (ع) کی ولادت سے لیکر ولایت تک کا سفر علم، حکمت اور جرأت کی داستان ہے۔

 

حوالہ جات

[1] ۔ مفيد، الارشاد، ص9؛ مجلسی، بحار الانوار، ج35، ص5 منقول از تہذيب؛ اربلی، کَشْفُ الغُمَّة، ج1، ص9 خانہ کعبہ ميں آپ (ع) کى ولادت کے موضوع کو اہل سنّت کے بہت سے مورخين و محدثين نے لکھا ہے. مزيد تفصيل کے لئے مسعودی، مروج الذہب، ج2، ص249؛ قاری، شرح الشفاء، ج1، ص151؛ حاکم، مستدرک، ج3، ص283؛ اور ملاحظہ ہو: آلوسی، شرح الخریدة الغیبیّة، ص۱۵۔

[2] ۔ عمران کے چار بيٹے، طالب، عقيل، جعفر اور على (ع) تھے۔ آپ ابوطالب کى کنيت سے مشہور تھے۔ ليکن ابن ابى الحديد نے شرح نهج البلاغة جلد1 ص11 پر حضرت علي (ع) کے والد کا نام عبد مناف لکھا ہے۔

[3] ۔ ابن هشام، السيرة النبوية، ج1، ص262؛ ابن الأثير، الكامل في التاريخ، ج2، ص58؛ اربلی، کَشْفُ الغُمَّة، ج۲، ص۷۹؛ طبری، تاریخُ الطبری، ج2، ص312۔

[4] ۔ سید رضی، نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ سے چند جملے از صبحى صالح حديث 192، ص300 اور دو سطريں ص812 سے۔

[5] ۔ طبری، تاریخُ الطبری، ج2، ص310؛ ابن اثير، الكامل في التاريخ، ج2، ص50؛ ابن هشام، السيرة النبوية، ج1، ص262؛ اربلی، کَشْفُ الغُمَّة، ج1، ص86.

[6] ۔ فيض الاسلام، ترجمه و شرح نہج البلاغہ خطبہ23، ص811 – 812۔

[7] ۔ سورہ شعراء، آيت214۔

[8] ۔ طبری، تاریخُ الطبری، ج2، ص320؛ طبرسی، مجمعُ البیان، ج2، ص206؛ امینی، الغَدیر، ج2، ص379؛ ابن الأثير، الكامل في التاريخ، ج2، ص62۔ 63۔

[9] ۔ ابن هشام، السيرة النبوية، ج2، ص124؛ ابن الأثير، الكامل في التاريخ، ج2، ص101-103؛ عاملی، الصحیح، ج2، ص238۔

[10] ۔ طباطبائی، المیزان، ج2، ص99۔ (دس جلد والي)؛ بحرانی، اَلبُرهان‌، ج1، ص206، ملاحظہ ہو۔

[11] ۔ سورہ بقرہ، آيت 207۔

[12] ۔ مدينہ سے دو فرسخ دور قبا قبيلہ بنى عمرو بن عوف کے سکونت کى جگہ تھی۔ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج4، ص301۔

[13] ۔ ابن شهرآشوب، المَناقِب، ج2، ص58؛ عاملی، الصحیح، ج2، ص295۔

[14] ۔ ”لَوْ تَظَاهَرَ اَلْعَرَبُ عَلَى قِتَالِي لَمَا وَلَّيْتُ عَنْهَا.” سید رضی، نہج البلاغہ، ص971۔

[15] ۔ مفيد، الإرشاد، ص52-53۔

[16] ۔ مجلسی، بِحارُالاَنوار، ج2، ص205 ”فَلَو وُزِنَ الْيَومُ عَمَلُكَ بِعَمَلِ امَّةِ مُحَمَّد صلى الله عليه و آله لَرَجَحَ عَمَلُكَ بِعَمَلِهِمْ …

[17] ۔ مفيد، الإرشاد، ص65-67۔

[18] ۔ امینی، الغدیر، ج1، ص9۔

[19] ۔ امینی، الغدیر، ج1، ص9۔11.

[20] ۔ سورہ مائدہ، آیت3۔

 

منابع و مآخذ

۱: القرآن الکریم۔

۲: آلوسی، شهاب الدین، شرح الخریدة الغیبیّة فی شرح القصیدة العینیّة لعبد الباقی أفندی العمری، بیروت، المؤسسة العربية الحديثة، ۱۳۸۰ھ ق۔

۳: ابن ابي الحديد، عبد الحميد بن هبة الله، شرح نهج البلاغة، بیروت، موسسة الاعلمی ۳: للمطبوعات، 1375ش۔

۴: ابن الاثیر الجزري، علي بن محمد، أسد الغابة في معرفة الصحابة، بيروت، دار الكتب العلمية، ١٤١٥ هـ

۵: ابن شهرآشوب، مَناقِبُ آلِ أبی طالب، بیروت، المکتبة الحیدریة، ۱۳۷۶ھ ق۔

۶: ابن هشام، عبد الملك بن هشام، السيرة النبوية لابن هشام، بیروت، دار المعرفة، 1405ھ ق۔

۷: اربلی، علی بن عیسی، کَشْفُ الغُمَّة فی مَعْرِفَةِ الأئمّة، بیروت، دار الاضواء، 1403ھ ق

۸: امینی، عبد الحسین، غَدیر فِی الْکِتابِ وَ السُّنّة وَ الْاَدَب، بیروت، موسسة الاعلمی، 1426ھ ق.

۹: بحرانی، سید هاشم، اَلبُرهان‌ فى‌ تَفسير القُرآن‌، بیروت، موسسة الاعلمی، 1412ھ ق۔

۱۰: حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، بیروت، دارالمعرفۃ، ۱۴۲۲ھ ق۔

۱۱: سید رضی، نَهجُ البَلاغة، محقق: صبحى صالح، قم، دار الهجرة، ۱۴۰۹ھ ق۔

۱۲: طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسة الاعلمی، ۱۳۷۵ھ ق۔

۱۳: طبرسی، فضل بن حسن، مجمعُ البیان فی تفسیر القُرآن، بیروت، دار العلوم، 1415ھ ق – 1995م۔

۱۴: طبری، محمد بن جریر، تاریخُ الطبری، بیروت، موسسة الاعلمی، ١٤٠١ ھ.ق۔

۱۵: عاملی، سید جعفر مرتضی؛ الصحیح من سیرة النبی الاعظم، قم، دارالحدیث، 1426 ھ.ق۔

۱۶: فيض ‌الاسلام اصفهاني، علي ‌نقي، ترجمه و شرح نهج البلاغة، تہران، سازمان چاپ و انتشارات فقيه، 1368 ہ ش۔

۱۷: قاری، علی بن سلطان ‌محمد، شرح الشفاء، بیروت، دارالکتب العلمية، 1421ھ ق۔

۱۸: مجلسی، محمد باقر، بِحارُ الاَنوار الجامِعَةُ لِدُرَرِ أخبارِ الأئمةِ الأطهار، تہران، دار الکتب الاسلامیة، 1315ھ ق.

۱۹: مسعودی، علی بن حسین، مُروجُ الذَّهَب و مَعادنُ الجَوهَر، بیروت، دار الهجرة، ۱۴۰۹ھ ق۔

۲۰: مفيد، محمد بن محمد، الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، قم، مؤسسة آل البيت عليهم السلام‌، 1413ھ ق‌۔

۲۱: یاقوت حموی، یاقوت بن عبدالله، معجم البلدان، بيروت، دار إحياء الثراث العربي، 1315ھ ق.

 

مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)

مركز تحقيقات اسلامي، تاريخ اسلام جلد۴ (حضرت فاطمہ اور ائمہ معصومين عليهم ‌السلام كى حيات طيبہ)، مترجم: معارف اسلام پبلشرز، نور مطاف، 1428 ھ ق؛ ص 11 الی 22۔

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے