پیغمبر اسلام (ص) سے منقول احادیث و روایات میں بہت سی ایسی واضح و روشن حدیثیں ایسی ہیں، جو آخرت میں اللہ کی طرف سے حضرت علی (ع) کو ملنے والا مخصوص مقام، کرامت اور بزرگی کو بیان کرتی ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
۱- لوائے حمد کے اٹھانے والے
حضرت علی (ع) کا مقام و مرتبہ اور ان کی رفعت و بلندی کا عالم یہ ہے کہ وہ قیامت میں لوائے حمد کے اٹھانے والے ہوں گے۔ اور یہ بہت بڑا مقام و مرتبہ ہے جس کو خدا نے ان کے سوا کسی اور کو عطا نہیں کیا۔ اس بارے میں جو حدیثیں بیان ہوئی ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں:
۱۔ رسول خدا (ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا: "أنتَ أَمَامِي فِي الجَنَّةِ یَومَ القِیَامَةِ فَیُدْفَعُ لِيْ لِوَاءُ الحَمْدَ فَأدْفَعُہُ إلَیْکَ وَ أَنْتَ تَذُودُ النَّاسَ عَنْ حَوضِيْ”[1] روز قیامت جس وقت مجھ کو لواء حمد عطا کیا جائے گا، آپ میرے سامنے ہوں گے، میں اس کو آپ کے حوالے کردوں گا اور آپ ہی میرے حوض سے دشمنوں کو دور کریں گے۔
٢۔ ابن عباس نے روایت کی ہے کہ میں نے عمر بن خطاب کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ علی ابن ابی طالب (ع) کے بارے میں بد گوئی نہ کرو، اس لئے کہ میں نے ان کو رسول اسلام (ص) کی زبانی ایسی خصلتوں کا حامل پایا ہے کہ اگر ان میں سے ایک بھی مجھ میں ہوتی، تو میرے نزدیک ان تمام چیزوں سے محبوب ہوتی جن پر سورج چمکتا ہے۔ اس کے بعد کہا کہ میں، ابوبکر، ابو عبیدہ اور دیگر چند اصحاب کے ساتھ ام سلمیٰ کے دروازہ کی طرف گیا۔ ہم نے دیکھا کہ علی (ع) دروازہ پر کھڑے ہیں۔ ہم نے کہا: ہم پیغمبر (ص) سے ملنا چاہتے ہیں، حضرت علی (ع) نے فرمایا: وہ ابھی تمہارے پاس آنے والے ہیں۔
کچھ دیر کے بعد میں نے دیکھا رسول خدا (ص) گھر سے نکلے، فورا ہم ان کی طرف بڑھے۔ رسول اسلام (ص) نے حضرت علی (ع) کا سہارا لے کر کھڑے ہوئے اور پھر اپنا ہاتھ حضرت علی (ع) کے دوش مبارک پر رکھ کر ان سے فرمایا: "أَنْتَ مُخَاصَم تُخَاصَمُ، أنْتَ أَوَّلُ المَؤمِنِیْنَ إیمَاناً، وَ أعَلَمُھُم بِأَیَّامِ اللَّہِ وَ أوْفَاھُمْ بِعَھدِہ، وَ أقسَمُھُم بالسَّوِیةِ، و أَرْأَفُھُم بِالرَّعِیّةِ، وَ أعْظَمُھُم رَزِیَّةً، وَ أَنْتَ عَضُدِي، وَ غَاسِلِي، وَ داَفِنِي وَ المُتَقَدِّم إِلیٰ کُل ّشِدّةٍ وَ کرِیھَةٍ وَ لَنْ تَرجِعَ بَعْدَي کَافِراً تَتَقَدَّمُنِي بِلِوَاء الحَمْدِ، وَ تذُوْدُ عَنْ حَوضِيْ”[2]
آپ ایمان کے لحاظ سے سب سے پہلے اظہار ایمان کرنے والے اور خدا کے دنوں کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں۔ لوگوں میں سب سے زیادہ عہد و پیمان وفا کرنے والے اور سب سے زیادہ عدل و انصاف کے ساتھ تقسیم کرنے والے ہیں اور رعایا کے اوپر سب سے زیادہ مہربان ہیں۔
آپ میرے بازو، مجھ کو غسل دینے والے، دفن کرنے والے اور ہر سختی و مشکلات کا سامنا کرنے والے ہیں۔ آپ میرے بعد ہرگز ایمان سے جدا نہیں ہو سکتے، آپ ہی (روز قیامت) میرے سامنے لوائے حمد اٹھائے ہوئے ہوں گے اور حوض کوثر سے دشمنوں کو دور کرنے والے ہوں گے۔ یہ حدیثیں حضرت علی (ع) کے چند مخصوص اوصاف کی طرف اشارہ کرتی ہیں:
١۔ حضرت علی (ع) سب سے پہلے وہ شخص ہیں، جنہوں نے اظہار اسلام کیا اور رسالت پیغمبر (ص) کی تصدیق کی تھی۔
٢۔ حضرت علی (ع) تمام مسلمانوں میں سب سے زیادہ عالم اور وہ ہی سب سے زیادہ ایام خدا اور احکام خدا کو سمجھنے والے ہیں یعنی آپ سے بہتر دین اسلام اور اس کے معارف سے کوئی آشنا نہیں ہے۔
٣۔ حضرت علی (ع) ہی لوگوں میں سب سے زیادہ عہد و ایمان وفا کرنے والے ہیں۔
٤۔ حضرت علی (ع) اسلام کے سب سے بلند و برتر حاکم ہیں، جو عدل، انصاف اور برابری کے ساتھ تقسیم کرنے والے اور رضائے الٰہی کے سوا کسی بھی قسم کے جذبات کے آگے تسلیم ہونے والے نہیں ہیں۔
٥۔ حضرت علی (ع) اپنی رعایا پر سب سے زیادہ مہربان ہیں۔
٦۔مشکلات اور مصیبتوں کو برداشت کرنے کے اعتبار سے وہ مسلمانوں میں سب سے زیادہ عظیم ہیں۔ واقعاً انہوں نے اپنے بھائی رسول خدا (ص) کی وفات کے بعد بڑی مصیبتوں کا سامنا کیا ہے۔
ابھی رسول خد (ص) کا کفن بھی میلا نہیں ہوا تھا کہ دشمنوں نے آپ کے گھر پر آگ و لکڑی جمع کرکے آگ لگادی، آپ کی شریک حیات رسول خدا (ص) کی پارہ جگر کے پہلو پر دروازہ گرا دیا۔ جس سے آپ کے فرزند محسن (ع) شکمِ مادر ہی میں شہید ہوگئے اور آپ کی تنہا یاور مددگار فاطمہ زہرا (ع) بھی اس دنیا سے چل بسیں۔
٧۔ حضرت علی (ع) رسول خدا (ص) کے بازو اور ان کے تمام امور کو انجام دینے والے ہیں، جن میں رسول خدا (ص) کا غسل اور ان کی تدفین شامل ہے۔
٨۔ حضرت علی (ع) پیغمبر اکرم (ص) پر پڑنے والی ہر مصیبت کو سب سے پہلے بر طرف کرنے والے ہیں۔
٩۔ حضرت علی (ع) ہی قیامت کے دن پیغمبر (ص) کے سامنے لوائے حمد کو اٹھانے والے ہیں۔
حضرت علی (ع) کی شان میں یہ تمام احادیث اور ان کے علاوہ دوسری حدیثوں کو سننے کے با وجود کیسے ان پر سبقت کی گئی اور کیسے ان کے حق الٰہی پر قبضہ جمایا گیا اور خلافت کو بنی امیہ کے حوالہ کر دیا گیا؟
٢۔ حوض کوثر کے مالک
جنت میں پیغمبر اسلام (ص) کا ایک حوض ہے جو کوثر کے نام سے مشہور ہے۔ وہ جنت کی ان بڑی نہروں میں سے ہے، جن کا پانی ٹھنڈا اور میٹھا ہے۔ اور اس کا منظر بڑا حسین ہے، حضرت علی (ع) اس حوض کے مالک ہیں۔ لہٰذا آپ کے دوستوں اور محبوں کے علاوہ کسی کو بھی اس کا پانی نصیب نہیں ہوگا۔
اس مطلب پر جو حدیثیں دلالت کرتی ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں:
۱- رسول خدا (ص) کا ارشاد ہے: "عَلِيُّ بِنُ أَبِيْ طَالِبْ صَاحِبُ حَوضِیْ یَومَ القِیَامَةِ فِیْہِ أَکْوَاب کَعَدَدِ نُجُومِ السَّمَاءِ، وَ سعَةُ حَوضِي مَا بیْن الجَابِیَةِ وَ صَنعَاء”[3] قیامت کے دن علی بن ابی طالب (ع) میرے حوض کے مالک ہیں، جس میں آسمان کے ستاروں کے برابر کوزے ہیں اور میرے حوض کی وسعت جابیہ اور صنعا کے درمیان کی دوری کے برابر ہے۔
سید اسماعیل حمیری نے اپنے اشعار میں اس حدیث کو اس طرح نظم کیا ہے:
حَوض لَہُ مَا بَیْنَ صَنْعَاء إلیٰ * أَیْلَةَ أَرْضِ الشَّامِ أَوْ أَوْسَعُ
حضرت علی (ع) کا ایک حوض ہے جس کی وسعت صنعا سے لے کر ایلہ تک ہے، جو شام میں ہے، بلکہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔
یُنْصَبُ فِیہِ عَلَم لِلْھُدَیٰ * وَ حَوضُ مَنْ مأءٌ لَہُ مَتْرَع
اس میں راہنمائی کے لئے پرچم نصب کیا جائے گا اور اس حوض کے اندر صاف و شفاف پانی ٹھاٹیں مارتا ہوا ہوگا۔
یَذُبُّ عَنْہُ ابنُ أَبِيْ طَالِبٍ * ذَبَّکَ جَرْبَیٰ إبِلٍ تَشْرَعُ[4]
حضرت علی (ع) دشمنان خدا اور دشمنان اہلبیت (ع) کو اس سے اس طرح دور کرتے ہوئے ہوں گے، جیسے مریض اونٹ کو گھاٹ سے دور کیا جاتاہے۔
۲۔ انس بن مالک سے روایت ہے کہ مجھ کو رسول خدا (ص) نے ابوبرزہ اسلمی کو بلانے بھیجا۔ جب ابوبرزہ اسلمی رسول خدا (ص) کے پاس آئے، تو آپ نے فرمایا: "یَا أبَا بَرزَة، إنَّ رَبَّ العَالَمِیْن تَعالیٰ عَھدَ إليَّ فِي عَلِيٍّ بنِ أَبِي طَالِبٍ عَهْداً، فَقَالَ ۔أي اللَّہُ تَعَالیٰ۔ عَلِی رَایةُ الھُدَی وَ مَنَارُ الإیْمَانِ وَ إمَامُ أَوْلِیَائِيْ وَ نُورُ جَمِیْعِ مَنْ أَطَاعنِي. یَا أبَا بَرزَةَ، عَلِيُّ بِنْ أبِيْ طَالِب مَعِيْ غَداً یَومَ القَیَامَةِ عَلیٰ حَوضِيْ وَ صَاحَبُ لِوَائِي وَ مَعِيْ غَداً عَلیٰ مَفَاتِیْح ِخَزَائِن جَنَّةِ رَبِّي”[5]
اے ابوبرزہ! بیشک عالمین کے پروردگار نے مجھ سے حضرت علی (ع) کے بارے میں محکم عہد و پیمان لیا ہے۔ اور مجھ سے فرمایا ہے کہ علی (ع) پرچم ہدایت، منارہ ایمان، میرے چاہنے والوں کے امام، اور میری اطاعت کرنے والوں کے لئے نور ہیں۔
اے ابوبرزہ! علی بن ابی طالب (ع) کل قیامت میں میرے حوض پر میرے سات میرے پرچم کو اٹھائے ہوں گے اور میرے ساتھ میرے پروردگار کی جنت کے خزانوں کی کنجیوں کے مالک ہوں گے۔
٣۔ رسول خدا (ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا: "أَنْتَ أمَامِيْ یَومَ القَیَامَةِ فَیُدْفَعُ إليَّ لِوَاءُ الحَمْدِ، فَأَدْفعُہُ إلَیْکَ أَنْتَ تَذُوْدُ النَّاسَ عَنْ حَوضِي”[6] کل قیامت کے روز آپ میرے آگے ہوں گے، مجھے لوائے حمد دیا جائے گا میں اس کو آپ کے حوالے کردوں گا اور آپ ہی دشمنوں کو میرے حوض سے ہٹائیں گے۔ خاندان نبی اور اصحاب میں سے یہ فضیلت حضرت علی (ع) کے سوا کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی ہے۔
۳۔ جنت و جہنم کے تقسیم کرنے والے
پیغمبر اکرم (ص) نے ایک اور بلند ترین مقام جو اپنے وصی اور علم کے دروازہ حضرت علی (ع) سے مخصوص کیا ہے، وہ آپ کا جنت و جہنم کو تقسیم کرنا ہے۔ ابن حجر عسقلانی نے اپنی سند کے ذریعہ نقل کیا ہے کہ حضرت علی (ع) نے شوری کے اراکین سے، جن کو عمر بن خطاب نے منتخب کیا تھا، فرمایا: "أنشِدُکُم باللہ ھَلْ فِیْکُم أَحَد قال لَہُ رَسُولُ اللَّہ یَا عَلِيّ أَنْتَ قَسِیْمُ الجَنَّةِ وَ النَّارِ یَومَ القِیَامَةِ غَیْرِيْ”[7]
میں تم کو اللہ کا قسم دے کر سوال کرتا ہوں کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ہے جس کے بارے میں پیغمبر (ص) نے فرمایا ہو کہ اے علی تم قیامت کے دن جنت و جہنم کے تقسیم کرنے والے ہو؟ سب نے ایک آواز میں کہا: خدا گواہ ہے آپ کے سوا کوئی نہیں ہے۔
ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث کے جو معنی کئے ہیں وہ وہی معنی ہیں جو ہمارے آٹھویں امام علی رضا علیہ السلام نے بیان فرمائے ہیں۔ وہ یہ کہ رسول خدا (ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا: آپ قیامت کے دن جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والے ہیں۔ آپ جہنم سے کہیں گے یہ میرا ہے اور یہ تیرا ہے۔
یہ بات بطور تحقیق ثابت ہے کہ اسلام سے پہلے اور اس کے بعد ایسی لامحدود فضیلت و برتری کسی بھی ولی خدا کونصیب نہیں ہوئی ہے، جیسی اللہ نے حضرت علی (ع) کو عطا فرمائی ہے۔ اور یہ حقیقت میں زمین پر کلمہ حق کی بلندی کے سلسلہ میں ان کی زحمتوں، کوششوں اور جہاد کا نتیجہ ہے۔
۴۔ ولایت علی (ع) پل صراط کا ویزا اور اجازت نامہ
ایک اور فضیلت جو اللہ نے امام المتقین، سید الموحّدین حضرت علی (ع) کو بخشی ہے، وہ یہ ہے کہ کوئی بھی آپ کی اجازت کے بغیر پل صراط سے نہیں گذر سکتا۔ اس مطلب پر بہت سی واضح و روشن احادیث دلالت کرتی ہیں ان میں سے چند گوہر نایاب حدیثیں بیان کرتے ہیں:
۱۔ رسول اکرم (ص) کا فرمان ہے: "إذَا جَمَعَ اللَّہُ الأَوَّلِیْنَ وَ الآخِرِیْنَ یَومَ القِیَامَةِ وَ نُصِبَ الصَّراطُ عَلیٰ جِسْرِ جَھنَّمَ مَا جَازَہُ أَحْد حَتـّیٰ کَانَتْ مَعَہ بَرَاءة بِوَلَایَةِ عَلِی بن أَبِيْ طَالِبٍ”[8] جب اللہ قیامت کے دن اولین و آخرین کو جمع کرے گا اور جہنم کے پل پر صراط کو نصب کرے گا، تو اس سے کوئی نہیں گذر پائے گا، جب تک اس کے ساتھ علی بن ابی طالب (ع) کی ولایت کا پرونہ نہ ہوگا۔
۲۔ انس بن مالک نے روایت کی ہے کہ جب ابوبکر کی موت کا وقت آیا، تو اس نے کہا: میں نے سنا ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ "إنّ عَلیٰ الصِّرَاطِ لَعَقَبَةً لا یَجُوزَھَا أحد إلَّا بِجَوَازِ مِنْ عَلِيّ بِن أَبِيْ طَالِبٍ”[9] پل صراط پر چیک پوسٹ ہے جس سے کوئی نہ گذرے گا مگر وہ کہ جس کے پاس پروانہ علی ابن ابی طالب (ع) ہوگا۔
۳۔ قیس بن جازم نے روایت کی ہے کہ ایک روز حضرت علی (ع) اور ابو بکر کا آمنا سامنا ہوا، تو ابوبکر نے حضرت علی (ع) کے چہرہ مبارک کو دیکھ کر مسکرایا۔ امام (ع) نے اس سے پوچھا: "مَالَکَ تَبَسَّمْتَ" کیا بات ہے کیوں مسکرا رہے ہو؟
اس نے کہا: میں نے رسول (ص) سے سنا ہے: "لا یَجُوزُ أحْد عَلَیٰ الصِرَاط إلا مَنْ کَتَبَ لَہ عَلِيّ الجَواز”[10] صراط سے کوئی نہ گذرے گا سوائے اس شخص کے کہ جسے علی (ع) نے پروانہ اجازت لکھ دیا ہو۔
۵۔ جنّت میں نبی (ص) کے ہمنشین حضرت علی (ع)
ایک اور خصوصیت و برتری جو خدا نے حضرت علی (ع) کو تمام مسلمانوں پر دی ہے وہ یہ ہے کہ آپ قصر فردوس بریں میں رسول خدا (ص) کے ساتھ ہوں گے۔ چنانچہ رسول اکرم (ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا: "یَا عَلِي أَنتَ أخِي وَ صَاحِبِي وَ رَفِیْقِي فِي الجَنَّة”[11] اے علی (ع) آپ میرے بھائی، دوست اور خلد بریں میں میرے ساتھ ہوں گے۔
آپ (ص) نے پھر امام سے فرمایا: "أَمَا تَرضیَ أَنَّکَ مَعِي فِی الجَنَّة وَالحَسنُ (ع) وَالحُسَینُ (ع) وَ ذُرّیَتُنَا خَلْفَ ظُھُورِنَا وَ أَزْوَاجُنَا خَلٰفَ ذُرِّیَتِنَا وَ شِیعَتُنَا عَنْ أَیمَانِنَا وَشَماَئلِنَا”[12] اے علی (ع) کیا آپ اس بات پر خوشحال نہیں ہیں کہ آپ جنت میں میرے ساتھ ہوں گے، حسن و حسین (ع) اور ہماری اولاد ہمارے پیچھے ہوں گی۔ اور ہماری ازواج ہماری اولاد کے پیچھے ہوں گی اور ہمارے شیعہ ہمارے دائیں بائیں ہوں گے۔
نتیجہ
احادیث نبوی کے آئینہ میں یہ حضرت علی (ع) کے فضائل کا ایک مختصر سا خاکہ تھا، جو اللہ و رسول (ص) کے نزدیک امام کی شخصیت کی بلندی اور ان کے مقام و مرتبہ کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔ اور اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خدا و رسول نے ان کو امامت و خلافت کے لئے منتخب کیا تھا۔ اور ان کو رسول اسلام (ص) کی وفات کے بعد امت اسلامی کا قائد قرار دیا تھا تاکہ وہ امت کو جنت کی راہ دکھا سکیں۔
حوالہ جات
[1]۔ متقی، کنز العمال، ج۶، ص۳۹۳۔
[2]۔ متقی، کنز العمال، ج۶، ص۳۹۲۔
[3]۔ ھیثمی، مجمع الزوائد، ج۱، ص٣٦٧؛ خوارزمی، المناقب، ص٣١٠؛ طبرانی، المعجم الأوسط، ج۱، ص٦٧۔
[4]۔ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج۲، ص١٣؛ حمیری، دیوان السید الحمیری، ص۲۶۴؛ فاضل هندی، شرح العینیۃ الحمریہ، ص٤٣٤۔
[5]۔ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج۱۴، ص۹۸؛ ابن اثیر، الکامل، ج۷، ص١٤١؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۴۲، ص٣٣۔
[6]۔ متقي، کنز العمال، ج۶، ص۴۰۰۔
[7]۔ هيتمي، الصواعق المحرقۃ، ص۷۵۔
[8]۔ طبری، الریاض النضرۃ، ج۲، ص۱۷۲؛ امینی، الغدیر، ج۱، ص٣٨٨ و ج١٠، ص٢٨٠۔
[9]۔ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج۱۰، ص ٣٥۶؛ امینی، الغدیر، ج۵، ص٣١٨۔
[10]۔ طبری، الریاض النضرۃ، ج۲، ص۲۰۹؛ طبری، ذخائر العقبی، ص٧١۔
[11]۔ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج۱۲، ص٢٦۸؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۴۲، ص٦١؛ امینی، الغدیر، ج۹، ص٢٩٨۔
[12]۔ هيتمي، الصواعق المحرقۃ، ص۹۶؛ طبری، ذخائر العقبی، ص٩٠؛ الدمشقی، جواہر المطالب، ص٢٢٩۔
منابع و مآخذ
- ابن اثیر، علی، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، ١٣٨٦ھ۔
- دمشقی باعونی شافعی، محمد، جواهر المطالب في مناقب الإمام علي بن أبی طالب (ع)، قم، مجمع احیاء الثقافت، ١٤١٥ھ۔
- إبن حجر هيتمي، أحمد، الصواعق المحرقۃ على أهل الرفض والضلال والزندقۃ، بيروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1997ء۔
- ابن شہر آشوب، محمد، مناقب آل ابی طالب، نجف الاشرف، المطبعۃ الحیدریۃ، ١٣٧٦ھ۔
- ابن عساکر، علی، تاریخ مدینة دمشق، محقق: علی شیری و عمر عمروی، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۵ھ /۱۹۹۵ء۔
- اخطب خوارزم، موفق، المناقب، نجف اشرف، المطبعۃ الحيدريۃ، ۱۳۸۸ھ/۱۹۶۵ء۔
- امینی، عبدالحسین، الغدير فى الكتاب و السنة و الادب، بیروت، دار الکتاب العربی، ١٣٧٩ھ۔
- حمیری، اسماعیل، ديوان السيد الحميري، شارح: اعلمی، ضیاء الدین، قم، مؤسسۃ الأعلمي للمطبوعات، ۱۴۲۰ ھ/۱۹۹۹ء۔
- خطیب بغدادی، احمد، تاریخ بغداد أو مدینۃ السلام، بیروت، دار الکتب العلميۃ، ۱۴۱۷ھ۔
- طبرانی، سلیمان، المعجم الأوسط، مصحح: محمود طحان، ریاض، مکتبة المعارف، ۱۴۰۵ھ۔
- طبری، احمد ذخائر العقبی في مناقب ذوي القربی، تہران، دار الکتب الإسلاميۃ، ۱۳۸۶ش۔
- فاضل هندی، محمد، اللآلی العبقريۃ في شرح العينيۃ الحميريۃ، قم، مؤسسۃ الإمام الصادق علیه السلام، ۱۴۲۷ھ۔
- متقي، علي، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، بيروت، مؤسسة الرسالة، ۱۹۸۹ء۔
- محب الدین طبری، احمد، الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ، بیروت، دار الکتب العلميۃ، ۱۴۲۴ھ۔
- هیثمی، علی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، بيروت، دار الفكر، ۱۴۱۲ھ۔
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):
قرشی، باقر شریف، سقیفہ کانفرنس، مترجم: ذیشان حیدر عارفی، تصحیح: سيد محمد سعيد نقوی، نظر ثانی: سید مبارک حسنین زیدی، مجمع جہانی اہل بیت (ع)، ۱۴۴۲ھ۔ ق،۲۰۲۱ء۔