حضرت علی (ع) اور ان کی اولاد کے بارے میں رسول اسلام (ص) نے جو کچھ بھی فرمایا ہے، وہ عین حقیقت ہے۔ اس لئے کہ آپ کی ذات تمام مخلوقات سے افضل اور آپ کی رفتار و گفتار وحی الٰہی کے مطابق ہے۔ لہذا آپ نے مختلف مقامات پر حضرت علی (ع) کے افضل ہونے کو بیان فرمایا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی (ع) رسول خدا کی طرح سب سے افضل ہیں اور ان کی جانشینی کے مستحق ہیں۔ ہم نمونہ کے طور پر چند حدیثیں بیان کرتے ہیں:
١۔ نفس رسول (ص)
الف۔ عقبہ نے بیان کیا ہے کہ بنی ولیعہ جب اسلام سے پھر گئے تو رسول خدا (ص) نے فرمایا: "لَیَنْتھِیَنَّ بَنُو وَلِیْعَةَ أَوْ لأبْعَثَنَّ إلَیْھِمْ رَجُلاً کَنَفْسِيْ یَقْتُلُ مَقَاتِلَھُمْ وَ یَسْبِيْ ذَرَارِیَّھم و ھُوَ ھٰذا”[1] بنی ولیعہ اپنے اس ارتداد سے باز آجائیں، ورنہ میں ان کی سمت ایک ایسے شخص کو بھیجوں گا، جو خود میرا نفس ہے۔ جو ان سے جنگ کرے گا اور ان کی عورتوں کو اسیر بنائے گا۔ اور وہ یہ ہے، یہ کہہ کے آپ نے اپنا ہاتھ حضرت علی (ع) کے دوش پر رکھا۔
ب۔ عمر بن عاص نے کہا ہے کہ جب میں جنگ ذات السلاسل سے واپس آیا، تو یہ سوچ رہا تھا کہ پیغمبر کی نظر میں کوئی بھی شخص مجھ سے زیادہ محبوب نہیں ہے۔ لہٰذا میں نے پیغمبر (ص) سے سوال کیا: یارسول اللہ! آپ کی نظر میں کون سب سے زیادہ محبوب ہے؟ آپ نے چند افراد کا نام لیا، میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! پس علی کیا ہوئے؟ تو آپ اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: "إنَّ ھٰذا یسأَلنِيْ عَنِ النَفسِ"[2] یہ مجھ سے میرے ہی نفس کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔
۲۔ دنیا و آخرت میں رسول خدا (ص) کے بھائی
الف۔ ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے اپنے اصحاب کے درمیان ایک روز رشتہ اخوت بر قرار کیا۔ اسی دوران حضرت علی (ع) تشریف لائے اور آپ کی آنکھیں اشک بار تھیں اور فرمایا: "یَا رَسُول اللَّہ آخَیْتَ بَیْنَ أَصحابِک، لَمْ تُواخِ بَینِی و بَینَ أَحْدٍ قال أنت أَخِي فِي الدُّنْیَا وَ الآخرة”[3] یا رسول اللہ آپ نے اپنے اصحاب کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا، لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا؟ تو رسول خدا (ص) نے فرمایا: اے علی (ع) تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔
ب۔ انس کا بیان ہے کہ ایک روز رسول خدا (ص) نے حضرت علی (ع) کو سینہ سے لگایا اور ان کی پیشانی کو بوسہ دے کر، بلند آواز میں فرمایا: "یَا مَعَاشِرَ المُسْلِمِیْنَ، ھٰذا اَخي وَ ابنُ عَمِّي وَ خَتَنِي، ھٰذا لَحْمِيْ و دَمِيْ و شَعْرِيْ، ھٰذا ابُو السِّبْطَیْنِ أَلحَسَنِ وَ الحُسَیْنِ سَیِّدَيْ شَبَابِ أهْلِ الجَنَّة”[4] مسلمانوں یہ میرے بھائی، چچا کے بیٹے اور میرے داماد ہیں۔ یہ میرا گوشت و پوست اور میرا خون ہیں، یہ میرے دونوں نواسے حسن و حسین (ع) جو جوانان جنت کے سردار ہیں، ان کے پدر بزرگوار ہیں۔
ج۔ ابن عمر کا بیان ہے کہ رسول خدا (ص) نے حجة الوداع میں حضرت علی (ع) کے شانے پر اپنا دست مبارک رکھا اور فرمایا: "اللَّھُمَّ أَشْھَد، اللَّھُمَّ قَدْ بَلَّغْتُ ھٰذا أَخِيْ وَ ابنُ عَمِّيْ وَ صِھرِي و أَبُو وَلَدَيَّ، اللَّھُمَّ کُبَّ مَنْ عَادَاہ فِي النَّار”[5] خدایا! گواہ رہنا میں نے لوگوں تک یہ بات پہنچا دی ہے کہ یہ میرے بھائی میرے چچا کے بیٹے میرے داماد اور میرے بچوں کے والد ہیں۔ خدایا! جو ان کو دشمن رکھے اس کو اوندھے منہ جہنم میں ڈالنا۔
د۔ رسول خدا (ص) ارشاد فرماتے ہیں: "لما أُسْرِيَ بِي إلیٰ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ قَالَ لِي جَبْرَئِیْلُ تَقَدَّم یَا مُحَمَّدُ فَوَاللَّہِ مَا نَالَ ھٰذہ الکَرَامَةَ مَلَک مُقَرَّب، و لا نَبِي مُرسَل فأَوْحیٰ لِي رَبِّي شیئاً فَلمَّا أنْ رَجَعتُ نادیٰ مُنَادٍ مِنْ وَرَاء الحَاجِبْ نِعْمَ الأَبُ أَبُوکَ إبْرَاهیْمَ، وَ نِعْمَ الأخُ أخُوکَ علي فَاسْتَوصِ بَہ خَیْرَاً"[6]
جب شب معراج مجھ کو ساتوں آسمانوں کی سیر کرائی گئی، تو مجھ سے جبرئیل نے کہا: اے محمد آگے بڑھئے، خدا کی قسم یہ عظمت کسی بھی مقرب فرشتہ اور نبی مرسل کو نصیب نہیں ہوئی ہے۔ پس میرے پروردگار نے چند چیزوں کی مجھ کو وحی کی، اور جب میں نے پلٹنے کا قصد کیا، تو پردہ سے کسی منادی نے ندا دی کہ بہترین باپ آپ کے باپ ابراہیم ہیں، اور بہترین بھائی آپ کے بھائی علی (ع) ہیں۔ پس لوگوں سے ان کے حق میں وصیت کر دیں۔
حضرت علی (ع) نے عمر کے مرنے کے بعد شوریٰ کے جلسہ میں فرمایا: "انَشَدتُکُم اللّٰہَ اَیُّھَا النَّفَرُ جَمِیعاً اَ فِیکُم أحَد أخُو رَسُولِ اللّٰہِ غَیرِي؟ قالوا اَللّٰھُمَّ لَا”[7] میں تم سب کو خدا کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں، کیا تمہارے درمیان میرے علاوہ کوئی رسول خدا (ص) کا بھائی ہے؟ سب نے کہا خدا گواہ ہے کوئی نہیں ہے۔
٣۔ رسول خدا (ص) کے وزیر اور جانشین
رسول خدا (ص) نے مختلف احادیث میں حضرت علی (ع) کو اپنے وزیر کے عنوان سے پہچنوایا ہے۔ آپ نے بار بار اس کی تأکید کی ہے کہ ان کے وزیر و جانشین حضرت علی (ع) کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے۔ ان میں سے بعض احادیث یہ ہیں:
الف۔ اسماء بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول خدا (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ "اللَّھُمَّ إنّي أَقُول کَمَا قَالَ أَخِيْ مُوسیٰ اللَّھُمَّ اجْعَل لِي وَزِیْراً مِنْ أهْلِيْ، أَخِيْ عَلِیاً اشْدُدْ ازْرِي وَ أَشْرِکْہُ فِي أَمرِي کَيْ نُسَبِّحُکَ کَثِیْراً وَ نَذْکُرَکَ کَثِیْراً إنَّکَ کُنْتَ بِنَا بَصِیْراً”[8]
خدایا! میں تجھ سے اسی چیز کا سوال کرتا ہوں، جس کا میرے بھائی موسیٰ نے کیا تھا۔ وہ یہ کہ بارالہٰا میرے خاندان سے میرے بھائی علی (ع) کو میرا وزیر قرار دے دے، تاکہ ہم تیری زیادہ تسبیح کرسکیں اور تجھ کو زیادہ یاد کرسکیں۔ بیشک تو ہمارے اعمال کا ناظر ہے۔
ب۔ جناب ابوذر فرماتے ہیں کہ ایک روز میں رسول خدا (ص) کے ساتھ نماز ظہر ادا کر رہا تھا، اسی وقت مسجد میں ایک فقیر نے لوگوں سے سوال کیا۔ لیکن کسی نے بھی اس کو کچھ نہ دیا۔ اس نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور کہا: "اللَّھُمَّ اشْھَد سألتُ فِی مَسجِد الِرَّسُولِ فَمَا أعْطَانِی أحْد شیئا” خدایا! تو گواہ رہنا کہ میں نے رسول کی مسجد میں لوگوں کے سامنے دست نیاز پھیلایا مگر کسی نے مجھے کچھ نہ دیا۔ حضرت علی (ع) اس وقت رکوع میں تھے، لہذا آپ نے اسے اشارہ کیا، تو سائل نے آپ کے ہاتھ سے انگوٹھی اتار لی۔
رسول خدا (ص) نے اس منظر کو دیکھ کر فرمایا: "أللَّھُمَّ اِنَّ أخِی مُوسیٰ بنَ عِمْرَان سَألکَ، قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي وَ يَسِّرْ لِي أَمْرِي وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي وَ اجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي هَارُونَ أَخِي اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي وَ أَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي”[9]
خدایا! میرے بھائی موسیٰ بن عمران نے تجھ سے سوال کرتے ہوئے، عرض کی پروردگار میرے سینے کو کشادہ کردے، میرے کام کو آسان کردے، اور میری زبان کی گرہ کو کھول دے کہ یہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے اہل میں سے میرا وزیر قرار دے دے، ہارون کو جو میرا بھائی بھی ہے، اس سے میری پشت کو مضبوط کردے، اسے میرے کام میں شریک بنادے.
"فَأنزَلْتَ عَلَیْہِ قُراناً ناطقاً {قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِيكَ وَ نَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطَانًا فَلَا يَصِلُونَ إِلَيْكُمَا بِآَيَاتِنَا أَنْتُمَا وَ مَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغَالِبُونَ}[10] اللَّھم اِنِّي مُحَمّد نبِیُّکَ وَ صَفِیُّک، اللّھُمَّ فَاشْرَحْ لِي صَدْرِي، وَ یَسِّرْ لِيْ أمْرِيْ وَ اجعل لِيْ وَزِیْرَاً مِنْ أهلِيْ، عَلِیاً أشدُدْ بِہ ظَھْرِيْ” لہذا تو نے ان پر وحی نازل کی کہ ہم تمہارے بازؤں کو تمہارے بھائی سے مضبوط کردیں گے اور تمہارے لئے ایسا غلبہ قرار دیں گے کہ یہ لوگ تم تک پہنچ ہی نہ سکیں اور ہماری نشانیوں کے سہارے تم اور تمہارے پیروکار ہی غالب رہیں گے۔
"اللّٰھُمَّ وَ اِنِّي مُحَمَدٌّ نَبِیُّکَ وَ صَفِیُّکَ اللّٰھُمَّ فَاشْرَحْ لِي صَدْرِي، وَ یَسِّرْ لِي اَمْرِي، وَ اجْعَلْ لِي وَزِیْراً مِن اَھْلِي عَلِیّاً أشدُد بِہ ظَھْرِيْ” بارالہا میں محمد تیرا نبی اور منتخب ہوں، پروردگارا میرے سینہ کو کشادہ فرما، میرے کام کو آسان کر دے، میرے اہل سے میرے بھائی حضرت علی (ع) کو میرا وزیر قرار دے دے اور اس کے ذریعہ میری پشت کو مضبوط فرما۔
ابوذر کہتے ہیں کہ ابھی پیغمبر (ص) کی دعا ختم بھی نہ ہونے پائی تھی کہ یہ آیت نازل ہوئی[11] "إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آَمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ}[12] ایمان والوں! بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں. اس آیت میں ولایت، الله، رسول اور حضرت علی (ع) کی ذات سے مخصوص کر دیا ہے۔
۴۔ خلیفہ رسول (ص)
کثیر تعداد میں حدیثیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت علی (ع) رسول خدا (ص) کے بعد ان کے خلیفہ و جانشین ہیں۔ ان میں سے بعض احادیث یہ ہیں:
الف۔ رسول خدا (ص) نے فرمایا: "یَا عَلِي أنْتَ خَلِیفَتِي عَلَیٰ أُمَّتِي”[13] اے علی تم میری امت میں میرے خلیفہ ہو۔
ب۔ رسول خدا (ص) کا فرمان ہے:"عَلِيُ بْنُ أَبِي طَالِبْ أقْدَمُھُمْ سِلْماً وَ أَکْثَرُھُمْ عِلماً ھُوَ الِامَامُ وَ الخَلِیْفَةُ بَعْدِيْ”[14] علی بن ابی طالب (ع) جو صلح کے لحاظ سے تمام لوگوں پر مقدم اور سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں، وہ میرے بعد امام اور خلیفہ ہیں۔
ج۔ رسول اسلام (ص) کا قول ہے: "مَعَاشِرَ النَّاسِ مَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّہِ قِیلاً؟ إنْ رَبَّکُمْ جَلَّ جَلالُہُ أَمَرَنِيْ أَنْ اُقِیمَ لَکُمْ عَلِیاً عَلَماً وَ إمَاماً وَ خَلِیفَةً وَ وَصیّاً”[15] اے لوگوں! خدا سے زیادہ راست گو کون ہوسکتا ہے تمہارے پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں علی (ع) کو تمہارے لئے امام، خلیفہ اور وصی قرار دوں۔
۵۔ حدیث منزلت میں علی (ع)
حدیث منزلت کے اعتبار سے رسول خدا (ص) نے حضرت علی (ع) کو اپنے نزدیک وہی مقام عطا فرمایا، جو مقام حضرت موسیٰ (ع) نے حضرت ہارون کو دیا تھا۔ لہذا آپ نے فرمایا: "أَمَا تَرْضیٰ أنْ تَکُونَ مِنِّي بِمَنْزِلةِ ھَارُونَ مِنْ مُوْسیٰ إلاَّ أَنَّہ لَیْسَ نَبِي بَعْدِيْ”[16] اے علی (ع) کیا آپ راضی نہیں ہیں کہ آپ کا مقام میرے نزدیک وہی ہے، جو ہارون کا موسیٰ کے نزدیک تھا مگر یہ کہ میرے بعد کوئی بنی نہیں ہوگا۔
سعد بن ابی وقاص کا بیان ہے کہ میں نے رسول خدا (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ "لعَلي ثَلاثُ خِصَالٍ” علي میں تین خصلتیں ہیں۔ اگر ان میں سے ایک میرے اندر ہوتی، تو وہ میرے نزدیک دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوتی۔ وہ یہ ہیں:
الف- رسول خدا (ص) نے حضرت علی (ع) کے بارے میں فرمایا: "أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ ھَارُونَ مِنْ مُوْسیٰ إلاَّ أَنَّہ لَا نَبِيَّ بَعْدِیْ” تمہارا مقام میرے نزدیک وہی ہے، جو ہارون کا موسیٰ کے نزدیک تھا مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔
ب- اسی طرح فرمایا: "لَأُعْطِیَنَّ الرَّایَةَ غَدَاً رَجُلاً یُحِبُّ اللَّہَ وَ رَ سُولَہُ، وَ یُحِبُّہُ اللَّہ و رَسُولہُ لَیْسَ بِفَرّار” کل میں علم ایسے مرد کو عطا کروں گا جو اللہ و رسول کو دوست رکھتا ہوگا اور اللہ و رسول اس کو دوست رکھتے ہوں گے اور جو میدا ن سے فرار نہ کرے گا۔
ج- آپ نے میدان غدیر میں علی کو ہاتھوں پر بلند کرکے فرمایا: "مَنْ کُنْتُ مُولاہ فَعِلي مَولَاہ”[17] جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں۔ یہی سعد ابن ابی وقاص ہے کہ جس نے سب کچھ دیکھا اور سنا لیکن پھر بھی اس نے اموی حاکم عثمان بن عفان کے قتل ہونے کے بعد حضرت علی (ع) کی بیعت سے گریز کیا تھا؟ اس کی یہی وجہ ہے کہ دنیا کر زرق و برق میں پھنس گئے، جس کے نتیجہ میں راہ راست سے منحرف ہوگئے۔ یہ حدیث شیعہ سنّی کے درمیان بہت مشہور و معروف ہے اور کثرت سے روایت ہوئی ہے۔
جناب شہید ثانی زید بن علی بن حسین (ع) نے "حدیث منزلت” کو اشعار میں اس طرح نظم کیا ہے: "وَ مَنْ فَضَّلَ الأَقْوَام یَوماً بِرَأیہ * فَإنَّ عَلِیاً فَضَّلَتْہُ المَنَاقِبُ” وہ اور ہے جس کو لوگوں نے اپنی رائے کی بنا پر فضیلت سے نوازا، لیکن علی ابن ابی طالب (ع) کی ذات وہ ہے جن کو خود ان کے ذاتی کمالات نے تمام انسانوں پر برتری دی ہے۔
"وَ قَولُ رَسُول اللَّہ وَ الحق قَولُہُ * وَ إنْ زَعَمَتْ مِنْہُ الاُنُوفُ الکَوَاذبُ” رسول خدا (ص) کا فرمان جو حق ہے، چاہے ذلیل و پست جھوٹے افراد اس کو جھٹلائیں اور شک کریں۔
"بِانَّکَ مِنِّي یَا عَلِيُّ مُعَالناً * کَھَارُوْنَ مِنْ مُوْسیٰ أَخ لِي وَ صَاحب” اے علی (ع) آپ میرے ویسے ہی بھائی اور ساتھی ہو جیسے ہارون موسیٰ کے تھے۔
"دَعَاہُ بِبَدرٍ فَاسْتَجابَ لِأَمْرِہ * فَبَادَرَ فِيْ ذات الإلَہ یُضَارِبُ”[18] جب آپ نے بدر میں حضرت علی (ع) کو جنگ کے لئے پکارا تو انہوں نے آپ کے حکم پر لبیک کہی اور اللہ کی محبت میں اس کے دشمنوں سے لڑنا شروع کیا۔
یہ حدیث اتنی اہمیت رکھتی ہے کہ جب قتل عمر کے بعد عثمان بن عفان کی بیعت ہو رہی تھی، تو حضرت علی (ع) نے اسی حدیث سے استدلال کیا اور مہاجر و انصار کو مخاطب کر کے فرمایا: "فَهَل تَعْلَمُونَ أَنّ رسولَ اللّہ قَالَ لِيْ أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلة ھَارُونَ مِنْ مُوْسی ثُمَّ قَال: فَهَلْ لِأحدٍ مِنْکُمْ مِثْلُ ھٰذہ المَنزِلةِ؟ نَحْنُ صَابِرُونَ لِیقْضي اللَّہ أمْراً کَانَ مَفْعُولا”[19]
کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا (ص) نے میرے بارے میں فرمایا: تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے، جو ہارون کو موسیٰ سے تھی۔ پھر آپ نے فرمایا: کیا تم میں سے کسی کا ایسا مقام اور منزلت ہے؟ ہم صبر کریں گے یہاں تک کہ خدا اس کا فیصلہ کرے جو ضرور ہوگا۔ واقعاً مہاجر و انصار نے رسول خدا (ص) کا یہ فرمان بھی سنا اور حضرت علی (ع) کے بارے میں ان کے دوسرے فرامین بھی سنے اور غدیر خم میں حضرت علی (ع) کی بیعت بھی کی، لیکن رسول خدا (ص) کی وفات کے بعد منحرف ہوگئے اور راہ مستقیم کو کھو بیٹھے۔
نتیجہ
ان تمام احادیث سے یہ نتیجہ ظاہر ہوتا ہے کہ امیرالمؤمنین علی (ع) رسول خدا (ص) کی طرح تمام مخلوقات سے افضل ہیں۔ اور نبوت کے علاوہ تمام فضائل و مناقب میں آنحضرت کے برابر ہیں۔ لہذا پیغمبر اسلام (ص) کے بعد حضرت علی (ع) کا جانشین ہونا عقل و خرد کے نزدیک لازم ہے۔ اگر رسول کی جگہ پر کوئی ایسا شخص آ جائے جو ذرہ برابر بھی آپ سے شباہت نہ رکھتا ہو، تو یہ عقل کی نظر میں قبیح اور غیر معقول ہے۔
حوالہ جات
[1]۔ ہیثمی، مجمع الزوائد، ج٧، ص١١٠؛ طبرانی، معجم الاوسط، ج۴، ص١٣٣۔
[2]۔ متقي، کنز العمال، ج۶، ص۴۰۰۔
[3]۔ ترمذی، سنن الترمذی، ج۲، ص۲۹۹؛ حاکم نیشابوری، مستدرک الحاکم، ج۳، ص ١٤؛ متقي، کنز العمال، ج۱۱، ص ٥٩٨؛ ابن عبد البر، استیعاب، ج۳، ص١٠٩٩۔
[4]۔ طبری، ذخائر العقبیٰ، ص٩٢۔
[5]۔ متقي، کنز العمال، ج۳، ص۶۱۔
[6]۔ متقي، کنز العمال، ج١١، ص٦٣٤۔
[7]۔ متقي، کنز العمال، ج۳، ص۱۵۵۔
[8]۔ طبری، الریاض النضرۃ، ج۲، ص۱۶۳؛ طبری، ذخائر العقبی، ص٦٣؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج٤٢، ص٥٢؛ اسکافی، المعیار و الموازنۃ، ص٧١؛ حسكانى، شواہد التنزیل، ج۱، ص ٤٧٩؛ ابن بطریق، العمدة، ص٢٧٢۔
[9]۔ سوره طہ: ۲۵- ۳۲۔
[10]۔ سوره قصص: ۳۲۔
[11] . فخر رازی، تفسیر مفاتیح الغیب، ج۱۲، ص۲۶؛ طبری، تفسیر طبری، ج۶، ص۱۸۶؛ ثعلبی، تفسیرثعلبی، ص٨١٤۔
[12] . سوره مائده: ۵۵۔
[13]۔ ابن بابویه، امالی، ص٤٥٠؛ موسوی، المراجعات، ص٢٨٩۔
[14]۔ رے شہری، موسوعۃ الامام امیر المومنین علی بن ابی طالب (ع)، ج۱، ص۱۰۹۔
[15]۔ موسوی، المراجعات، ص٢٩٠؛ فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ص١٠٠۔
[16]۔ طیالسی، مسند ابی داؤد، ج۱، ص۲۹؛ بخاری، صحیح البخاری، ج۵، ص ١٢٩؛ ھیثمی، مجمع الزوائد، ج۹، ص١٨١؛ قندوزی، ینابیع المودة، ج۱، ص١٥٦؛ حاکم نیشابوری، مستدرک حاکم، ج۳، ص١٣٣؛ نسائی، فضائل الصحابۃ، ص١٣ و ١٤؛ نسائی، خصائص النسائی، ص۱۶۔
[17]۔ متقي، کنزالعمال، ج۶، ص۴۰۵؛ ترمذی، سنن ترمذی، ص٩٧٥؛ ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، ج۱، ص٤٥۔
[18]۔ صفدی، الوافی بالوفیات، ج١٥، ص٢٣۔
[19]۔ ترمذی، سنن الترمذی، ج۲، ص٣٠۱؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد أو مدینة السلام، ج۳، ص۳۷۸؛ ھیثمی، مجمع الزوائد، ج۹، ص١٠٩؛ متقی، کنز العمال، ج۱۱، ص٥٩٩؛ فخر رازی، تفسير مفاتيح الغيب، ج۱۶، ص٧٦؛ قرطبی، الجامع لأحكام القرآن، ج۱، ص٢٢٦۔
منابع
- قرآن کریم
- ابن بابویه، محمد، الأمالي، مترجم: کمرهای، محمد باقر، تهران، ۱۳۷۶ش۔
- ابن بطریق، یحیی، عمدة عيون صحاح الأخبار في مناقب إمام الأبرار، قم، نشر اسلامی تابع جامع مدرسین، ١٤٠٧ھ۔
- ابن عبد البر، یوسف، الاستيعاب فى معرفة الأصحاب، تحقيق: البجاوى، على محمد، بيروت، دار الجيل، ۱۹۹۲ء۔
- ابن عساکر، علی، تاریخ مدینة دمشق، محقق: شیری، علی، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۵ھ۔
- ابن ماجه، محمد، سنن ابن ماجه، محقق: معروف، بشار عواد، بيروت، دار الجيل، ۱۴۱۸ھ۔
- اسکافی، محمد، المعیار و الموازنة، مترجم: مهدوی دامغانی، محمود؛ محقق: محمودی، محمد باقر، مکان نشر غیر معلوم، ۱۳۷۴ش۔
- بخاری، محمد، صحیح البخاری، بیروت، دار الفکر، ١٤٠١ھ۔
- ترمذی، محمد، سنن الترمذي محقق: شاکر، احمد محمد، قاهره، دار الحدیث، ۱۹۹۹ء۔
- ثعلبی، احمد، الكشف و البيان المعروف تفسير الثعلبي، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ١٤٢٢ھ۔
- حاکم نیشابوری، محمد، المستدرک علی الصحیحین، محقق: محمد، حمدی دمرداش، بیروت، المکتبة العصرية، ۱۴۲۰ھ۔
- حسكانى، عبيد الله، شواهد التنزيل لقواعد التفضيل، محقق: محمودى، محمدباقر، تهران، وزارة الثقافة و الإرشاد الإسلامي، مؤسسة الطبع و النشر، ۱۴۱۱ھ۔
- خطیب بغدادی، احمد، تاریخ بغداد أو مدینة السلام، بیروت، دار الکتب العلمية، بغیر تاریخ۔
- رے شہری، محمد، موسوعۃ الامام علی بن ابی طالب فی الکتاب و السنۃ و التاریخ، قم، دارالحدیث، ۱۴۲۵ھ۔
- موسوی، عبد الحسین، المراجعات، محقق: راضی، حسین، بیروت، ۱۴۱۸ھ۔
- صفدی، خلیل، الوافي بالوفيات، محقق: ارناووط، احمد؛ مصطفی، ترکی، بیروت، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۲۰ھ۔
- طبرانی، سلیمان، المعجم الأوسط، مصحح: طحان، محمود ریاض، مکتبة المعارف، ۱۴۰۵ھ۔
- طبرى، محمد، جامع البيان فى تفسير القرآن (تفسير الطبرى)، بيروت، دار المعرفة، ۱۴۱۲ھ۔
- طبری، احمد، الریاض النضرة، بیروت، دار الکتب العلمية، ۱۴۲۴ھ۔
- طبری، احمد، ذخائر العقبی في مناقب ذوي القربی، قاهره، مکتبة القدس، ۱۳۵۶ھ۔
- طیالسی، سلیمان، مسند ابي داود الطيالسي، بیروت، دار المعرفة، بغیر تاریخ۔
- فتال نیشابوری، محمد، روضة الواعظین، قم، الشريف الرضي، ۱۳۷۵ش۔
- فخر رازی، محمد، تفسير مفاتيح الغيب، بيروت، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۲۰ھ۔
- قرطبى، محمد، الجامع لأحكام القرآن، تهران، ناصر خسرو، ۱۳۶۴ش۔
- قندوزی، سلیمان، ینابیع المودة، محقق: اشرف، علی، قم، دار الأسوة للطباعة و النشر، ۱۴۲۲ھ۔
- متقي، علي، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، بيروت، مؤسسة الرسالة، ۱۹۸۹ء۔
- نسائی، احمد، فضائل الصحابۃ، بیروت، دار الکتب العلمية، ۱۴۰۵ھ۔
- نسائی، احمد، خصائص أميرالمؤمنين علي بن أبي طالب، محقق: آل زهوی، دانی، بیروت، المکتبة العصرية، ۱۴۲۴ھ /۲۰۰۳ء۔
- هیثمی، علی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، بيروت، دار الفكر، ۱۴۱۲ھ۔
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):
قرشی، باقر شریف، سقیفہ کانفرنس، مترجم: ذیشان حیدر عارفی، تصحیح: سيد محمد سعيد نقوی، نظر ثانی: سید مبارک حسنین زیدی، مجمع جہانی اہل بیت (ع)، ۱۴۴۲ھ، ۲۰۲۱ء۔