حضرت فاطمہ زہرا (ع) کے گھر ؛ مرکز وحی کو آگ لگانے کی حقیقت

حضرت فاطمہ زہرا (ع) کے گھر ؛ مرکز وحی کو آگ لگانے کی حقیقت

2025-03-04

17 بازدید

اس بات پر تمام مورخین اور محدثین کا اتفاق ہے کہ آیت تطہیر کے نازل ہونے کے بعد رسول خدا (ص) کم سے کم چھ مہینے تک در فاطمہ (ع) پر نماز فجر سے پہلے سلام دیتے تھے اور اس کے بعد نماز کے لئے جاتے تھے۔ افسوس صد افسوس جس در پر عظیم ترین رسول (ص) سلام کرے، فرشتہ وحی لے کر آئے، اس خانہ وحی کو نذر آتش کر دیا جائے۔ اور یادگار رسول سیدۂ نساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا (ع) پر ظلم کی انتہا کر دی جائے۔ ہم یہاں چند مہم مؤرخین اور محدثین کے بیانات کو نقل کرتے ہیں:

۱۔ طبری

طبری نے نقل کیا ہے کہ حضرت فاطمہ (ع) کے گھر عمر بن خطاب آئے، اس وقت وہاں طلحہ، زبیر اور کچھ دوسرے مہاجرین تھے۔ اس نے کہا: خدا کی قسم! یا تو بیعت کرنے کے لئے گھر سے باہر نکل آئیں، ورنہ میں گھر کو آگ لگادوں گا۔ یہ سن کر زبیر تلوار کھینچتے ہوئے عمر کی طرف بڑھے، لیکن ان کو ٹھوکر لگی اور تلوار ان کے ہاتھ سے گر گئی۔ عمر اور اس کے ساتھیوں نے زبیر کو گرفتار کر لیا اور تلوار چھین لی۔[1]

۲- ابن عبد ربہ

ابن عبد ربہ کا بیان ہے: ابوبکر کی بیعت کی مخالفت کرنے والے حضرت علی (ع)، عباس، زبیر، اور سعد بن عبادہ تھے۔ لیکن حضرت علی (ع) کے ساتھ، عباس اور زبیر حضرت فاطمہ زہرا (ع) کے گھر میں بیٹھے رہے۔ ابوبکر نے عمر ابن خطاب کو ان کے پاس بھیجا تاکہ ان کو جناب فاطمہ زہرا (ع) کے گھر سے نکال کر لائے۔ اور یہ بھی کہا کہ اگر وہ انکار کریں، تو ان سے جنگ کرنا۔ لہذا عمر بن خطاب آگ کا شعلہ لے کر بیت الشرف کی طرف بڑھے تاکہ گھر کو آگ لگائے۔

حضرت فاطمہ زہرا (ع) نے جب یہ دیکھا، تو ان سے کہا: "أَ جِئتَ لِتُحۡرِقُ دَارَنا” اے پسر خطاب کیا تو ہمارے گھر کو جلانے کے لئے آیا ہے؟ اس نے جواب دیا: ہاں مگر یہ کہ تم لوگ بھی دوسروں کی طرح بیعت کرلو۔[2]

۳- ابن ابی الحدید

ابن ابی الحدید نے بیان کیا ہے کہ عمر انصار اور کچھ مہاجرین کے ساتھ حضرت فاطمہ زہرا (س) کے گھر آئے اور کہا: اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں عمر کی جان ہے، بیعت کے لئے نکلو ورنہ میں گھر کو آگ لگا دوں گا۔[3]

۴- شہرستانی

شہرستانی نے نظام سے نقل کیا ہے کہ عمر نے چیخ چیخ کر کہا: "احرقُوا دَارَھَا بِمَنْ فِیھَا”[4] اس گھر کو اس میں موجودہ افراد کے ساتھ آگ لگادو، جبکہ گھر میں حضرت علی (ع)، حضرت فاطمہ (ع)، حضرت امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کے علاوہ کوئی نہ تھا۔

۵- کحّالہ

کحالہ نے کہا ہے: ابوبکر کو جب اس بات کا معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے ان کی بیعت سے انکارکیا ہے وہ یعنی عباس، زبیر اور سعد بن عبادہ؛ حضرت علی (ع) کے ساتھ جناب فاطمہ زہرا (ع) کے گھر میں موجود ہیں، تو اس نے عمر بن خطاب کو بھیجا۔ وہ جناب فاطمہ (ع) کے گھر کی طرف آئے اور جو جو گھر میں تھے ان کو باہر نکلنے کے لئے کہا۔

جب انھوں نے نکلنے سے منع کیا، تو عمر نے لکڑیاں منگوائی اور کہا: "اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، باہر آ جاؤ، ورنہ میں اس گھر کو موجودہ افراد کے ساتھ آگ لگا دوں گا” اس سے کہا گیا: اس میں تو حضرت فاطمہ زہرا (ع) بھی ہیں، تو عمر نے بڑی جسارت اور بے احترامی کے سے کہا: ہوا کریں![5]

۶- مسعودی

مسعودی نے ذکر کیا ہے کہ وفات رسول (ص) کے بعد عباس بن عبد المطلب، حضرت علی (ع) کے پاس گئے۔ حضرت اس وقت اپنے بعض شیعوں کے ساتھ گھر میں ان امور کے انجام دینے میں مشغول تھے، جن کا عہد رسول خدا (ص) نے ان سے لیا تھا۔ اسی اثنا میں کچھ لوگوں نے گھر پر حملہ کر دیا، ان کے دروازہ کو آگ لگا دی اور زبردستی ان کو نکالنا چاہا اور سیدہ نساء عالمین کو در و دیوار کے درمیان گرا د یا۔[6]

یہ اہل سنت کے وہ مؤرخین ہیں جنہوں نے اس دردناک حادثہ کو تحریر کیا ہے۔ جس میں رسول خدا (ص) کی لخت جگر کی حرمت پائمال کر دی گئی اور دشمنوں نے یہ فراموش کردیا کہ یہ گھر، مرکز نبوت ہے۔ اس گھر سے کلمہ توحید بلند ہوا ہے۔ اس گھر کے دروازہ پر رک کر وقت نماز رسول خدا (ص) نے مسلسل چھ ماہ اس آیۂ شریفہ کی تلاوت کی {إِنَّمَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيُذۡهِبَ عَنكُمُ ٱلرِّجۡسَ أَهۡلَ ٱلۡبَيۡتِ وَ يُطَهِّرَكُمۡ تَطۡهِيرًا}[7] بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیھم السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

وہ لوگ جنھوں نے خانہ زہرا (ع) پر چڑھائی کی

وہ افراد جن کی مدد سے عمر بن خطاب نے خانہ وحی کو آگ لگائی ان کے نام یہ ہیں:

۱۔ اسید بن حضیر

یہ خانہ نبوت اور اسلام کے مرکز وحی و علم کو جلا نے کے لئے لکڑیاں لایا۔[8]

۲۔ محمد بن مسلمہ خزرجی

یہ شخص حضرت علی (ع) کا سخت ترین دشمن تھا۔ اسی کے ساتھ خوارج حضرت علی (ع) سے کنارہ کش ہوئے۔ یہ ان لوگوں کے ساتھ برابر کا شریک تھا، جنہوں نے خانہ زہرا (ع) کو آگ لگائی۔[9]

۳- قنفذ

یہ عمیر تیمی کا بیٹا اور ابوبکر کا غلام تھا۔ اس نے حضرت فاطمہ زہرا (ع) کو تازیانہ لگایا اور خانہ زہرا (ع) کو آگ لگانے میں حصہ لیا۔ عمر ابن خطاب اس کو دل سے چاہتا تھا۔ اور اس کے سوا اپنے تمام عمال سے آدھا مال لیتا تھا۔ عمر نے کبھی بھی اس سے مال طلب نہیں کیا، بلکہ اس کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے ابوبکر کی بیعت لینے میں مدد کی ہے۔

۴۔ بشیر بن سعد خزرجی

یہ شخص بھی خانہ زہرا (ع) پر حملہ کر نے والوں میں سے تھا اور امام (ع) سے منحرف تھا۔ اس کا بیٹا نعمان بن بشیر یزید کے دور حکومت میں والی کوفہ تھا۔ یہ وہ افراد تھے جنہوں نے عمر کی قیادت میں ابوبکر کے حکم سے خانہ زہرا (ع) پر چڑھائی کی اور اس کو آگ لگائی۔

ابوبکر کی پشیمانی

ابوبکر نے مرتے وقت کہا: "مجھے جتنا افسوس تین چیزوں کے انجام دینے پر ہوا، اتنا افسوس اس دنیا کی کسی چیز پر نہیں ہوا، اگرچہ میں یہ چاہتا تھا کہ ان کو انجام نہ دوں” ان تین چیزوں میں سے ایک حضرت فاطمہ زہرا (ع) کے گھر پر حملہ کرنا تھا۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں: "میں نے چاہا کہ خانہ زہرا (ع) کی ہتک حرمت نہ ہو”[10]

دوسری مرتبہ ابوبکر نے کہا: "مجھے اس دنیا کی تین چیزوں کے سوائے کسی چیز پر افسوس نہیں ہے۔ میں نے چاہا کہ ہرگز ان کو انجام نہ دوں، میں نے چاہا کہ ہرگز خانہ زہرا (ع) میں مداخلت نہ کروں اور نظر انداز کر دوں، اگرچہ اس میں موجود افراد مجھ سے لڑنے کا قصد بھی رکھتے”[11

ولادت سے قبل بچے کی شہادت

جو بات ہر مسلمان کے دل کو ہلا دیتی ہے وہ یہ ہے کہ رسول (ص) کی لخت جگر پر وہ ظلم و ستم ہوئے کہ جس کی وجہ سے قبل از ولادت حضرت محسن (ع) کی شہادت ہوگئی۔ تمام راویوں نے اس بات کو ذکر کیا ہے۔ جن میں سے ہم یہاں پر بعض تاریخی منابع کو بغیر کسی حاشیہ کے بیان کررہے ہیں:

۱- ابن حجر

ابن حجر عسقلانی نے احمد بن محمد بن سری بن یحی بن دارم، محدث ابوبکر کوفی کے شرح حال میں نقل کیا ہے کہ محمد احمد کوفی نے ان کی تاریخ وفات لکھنے کے بعد کہا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی میں ایک مستقل مزاج انسان تھے۔ ان کی زندگی کے آخر میں ان کے سامنے دوسروں کے مطاعن و معایب بیان کئے جاتے تھے۔ ایک روز میں ان کی بزم میں حاضر ہوا، تو میں نے دیکھا کہ اس وقت ایک آدمی ان کے سامنے یہ بیان کررہا ہے کہ عمر ابن خطاب نے حضرت فاطمہ زہرا (ع) کو ایسی ضرب پہنچائی، جس کی وجہ سے ان کے فرزند محسن (ع) ساقط ہوگئے۔[12]

۲- شہرستانی

شہر ستانی نے ابراہیم بن سیّار سے روایت کی ہے کہ عمر نے فاطمہ زہرا (ع) کو ایسی ضرب پہنچائی، یہاں تک آپ کے شکم کا بچہ ساقط ہوگیا۔ اور وہ لوگ چیخ رہے تھے کہ اس گھر کو گھر والوں سمیت جلا ڈالو۔[13]

۳- مسعودی

مسعودی نے کہا ہے کہ "انہوں نے سیدة النساء العالمین کو دروازہ سے اتنا دبایا کہ محسن (ع) ساقط ہو گئے”[14]

۴- ذہبی

ذہبی نے اپنی سند سے محمد بن احمد بن حماد کوفی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: "میں ان کے پاس حاضر ہوا، تو ان کے سامنے ایک شخص بیان کر رہا تھا کہ عمر نے حضرت فاطمہ زہرا (ع) پر اتنی زیادتی کی جس کی وجہ سے محسن (ع) ساقط ہوگئے”[15]

۵- ابن قتیبہ

ابن قتبیہ کا بیان ہے کہ "حضرت محسن (ع) قنفذ کے زخم لگانے کی وجہ سے ساقط ہوئے ہیں”[16]

۶- صفدی

صفدی نے ذکر کیا ہے کہ عمر نے ابوبکر کی بیعت کے دن حضرت فاطمہ زہرا (ع) پر ایسا حملہ کیا، جس کی وجہ سے محسن (ع) ساقط ہوگئے۔[17]

۷- طبری

طبری کا کہنا ہے کہ "آپ (جناب فاطمہ زہرا (ع) کی وفات کا سبب یہ تھا کہ مرد (ابوبکر کے غلام قنفذ) نے ان کے حکم سے تلوار کے دستہ سے آپ پر حملہ کیا، جس کی وجہ سے حضرت محسن (ع) ساقط ہوگئے اور آپ بہت زیادہ مریض ہوگئیں”[18]

۸- طبرسی

مرحوم طبرسی نے امام حسن (ع) کے اس احتجاج کو بیان کیا ہے جو آپ نے دشمنان اہلبیت (ع) پر کیا تھا۔ ان میں مغیرہ بن شعبہ بھی تھا۔ چنانچہ آپ مغیرہ سے فرماتے ہیں:

"وَ أَمَّا أَنتَ یا مُغِیْرَةُ فَإنَّکَ لِلَّہِ عَدُوّ وَ لِکِتَابِہ نَابِذ وِ لِنَبِیِّہِ مُکَذِّب وَ أَنْتَ الزَّانِيْ وَ قَدْ وَجَبَ عَلَیْکَ الرَّجْمُ وَ أَنْتَ الذِيْ ضَرَبْتَ فاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حتّی أدۡمَیۡتَها و أَلقَتْ مَا فِي بَطْنِھَا استِذلالاً مِنْکَ لِرَسُولِ اللَّہِ وَ مُخَالَفَةً مِنْکَ لأَمْرِہ وَ انتِھَاکاً لِحُرْمَتِہِ وَ قَد قَالَ لَھَا رَسُولُ اللَّہِ صلی اللَّہُ عَلیہ وَ آلہ وَ سَلم: یَا فَاطِمَةُ أَنْتِ سَیِّدَةُ نِسَاء أَھْلِ الجَنَّةِ وَﷲ مُصَیِّرُکَ إلی النَّارِ وَ جاعِلُ وَبَالَ ما نَطَقتَ بِہ عَلیک”[19]

لیکن اے مغیرہ! تو خدا کا دشمن، اس کی کتاب سے روگردانی کرنے والا، اس کے نبی کو جھٹلا نے والا، زنا کار ہے، تیرے اوپر حد رجم واجب ہے۔ تو وہ ہے جس نے رسول کی بیٹی فاطمہ زہرا (ع) پر اتنے شدید حملے کئے کہ ان کے جسم سے خون جاری ہوگیا اور محسن کی شہادت واقع ہوگئی۔ تو نے اللہ کے رسول (ص) کی توہین، ان کے حکم کی مخالفت اور ان کی حرمت کو پامال کیا ہے، جبکہ رسول خدا (ص) نے اپنی بیٹی کے بارے میں فرمایا تھا: اے فاطمہ! تم جنت کی عورتوں کی سردار ہو۔

(اے مغیرہ) خدا وند عالم نے تیرا ٹھکانہ جہنم قرار دیا ہے اور تو نے ان کے بارے میں جو گستاخی کی ہے، خدا نے اس کی سزا اور گناہ تیرے نامہ عمل میں قرار دیا ہے۔

۹- محمد باقر مجلسی

علامہ مجلسی نے ارشاد القلوب سے اپنی سند کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا (ع) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: "فَأخَذَ عُمَرُ السَّوطَ مِن یَدِ قُنفُذ مُولَی أبي بَکْر، فَضَربَ بِہ عَضُدِي، فَالتَوی السَّوطُ عَلی عَضُدِي حَتّی صَارَ کَالدُّملُجِ، وَ رَکَلَ البَابَ بِرِجۡلِہ فَرَدَّہ عَليَّ وأنَا حَامِل فَسَقَطۡتُ لِوَجهي، وَ النَّارُ تَسعَرُ و تَسفَعُ وَجهي، فَضَرَبني بیَدِہِ حَتَّی اِنتَثَرَ قُرطِي مِن اُذنِيِ، وِجَاءَنِي المَخَاضُ فَسقَطتُ مُحسِنَاً قَتِیلَاً بِغَیرِ جُرمٍ"[20]

عمر نے قنفذ کے ہاتھ سے تازیانہ لیا اور میرے بازو پر اتنی زور سے مارا کہ تازیانہ میرے بازو پر لپٹ گیا اور بازو بند کی طرح ہوگیا۔ اس کے بعد اس نے دروازہ پر لات ماری اور دروازہ کو میری طرف دھکیل دیا، جبکہ میرے بطن میں محسن تھے، میں منہ کے بل زمین پر گر پڑی۔ آگ کے شعلے بلند ہونے لگے، جس کی وجہ سے میرا چہرہ جھلس گیا۔ پھر اس نے مجھ پر اتنے حملے کئے مجھے اپنے ہاتھ سے اتنا مارا کہ میرے کان سے میرے گوشوارے دور جا کر گرے۔ مجھ کو درد شروع ہو گیا اور میرا محسن بے گناہ شہید ہوگیا۔

یہ وہ بعض منابع تھے، جن میں بنت رسول (ص) پر اس ظالم قوم کے ظلم و ستم اور شہادت محسن (ع) جیسی زیادتی کو بیان کیا گیا ہے۔ اس دردناک حادثہ کے متعلق ہمارے آئمہ (ع) سے بھی روایات نقل ہوئی ہیں۔

 

نتیجہ

شیعہ سنی دونوں فریق کی کتابوں سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ رسول خدا (ص) کی وفات کے بعد آپ کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (س) پر بے انتہا ظلم ستم کیا گیا۔ جس دروازہ پر وحی نازل ہوتی تھی اور رسول سلام کیا کرتے تھے اس پر آپ کے بعض اصحاب آگ اور لکڑیا لے کر آئے اور اس طرح قرآن ناطق کی رحل کو نذر آتش کیا گیا۔

 

حوالہ جات

[1]۔ طبری، تاریخ طبری، ج۳، ص۱۹۸۔

[2]۔ ابن عبد ربہ، العقد الفرید، ج۵، ص۱۲، موسوی ہندی، افحام الاعداء و الخصوم، ص۹۰۔

[3]۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱،ص۱۲۴۔

[4]۔ شہرستانی، الملل و النحل، ج۱، ص۵۶۔

[5]۔ اعلمی حائری، تراجم اعلام النساء، ج۴، ص۱۱۴۔

[6]۔ مسعودی، اثبات الوصیۃ، ص۱۲۳۔

[7]۔ احزاب: ۳۳۔

[8]۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۶، ص۴۷۔

[9]۔ ابن حجر عسقلانی، الاصابہ، ج۳، ص۲۸۳۔

[10]۔ طبری، تاریخ الطبری، ج۲، ص۶۱۹؛ ذہبی، میزان الاعتدال، ج۲، ص۲۱۵؛ متقي، کنز العمال، ج۵، ص٦٣١؛ ابن حجر عسقلانی، لسان المیزان، ج۴، ص١٨٩۔

[11]۔ ابن حجر عسقلانی، لسان المیزان، ج۴، ص١٨٩؛ طبرانی، المعجم الکبیر، ج۱، ص٦٢؛ ذہبی، میزان الاعتدال، ج۳، ص١٠٩؛ ذہبی، تاریخ الاسلام، ج۳، ص١١٨۔

[12]۔ ابن حجر عسقلانی، لسان المیزان، ج۱، ص۲۶۸۔

[13]۔ شهرستانی، الملل و النحل، ج۱، ص۵۷۔

[14]۔ مسعودی، اثبات الوصیۃ، ص۱۴۳۔

[15]۔ ابن حجر عسقلانی، لسان المیزان، ج۱، ص٢٦٨؛ ذہبی، میزان الاعتدال، ج۱، ص١٣٩۔

[16]۔ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج۳، ص۳۵۸؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۴۳، ص٢٣٣۔

[17]۔ صفدی، الوافی بالوفیات، ج۵، ص۳۴۷۔

[18]۔ طبری، دلائل الامامة، ص١٣٤؛ اور ان سے علّامہ مجلسی نے روایت کی ہے: بحار الانوار، ج۴۳، ص١٧٠۔

[19]۔ طبرسی، الاحتجاج، ج۱، ص٤١۳؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۴۴، ص٨٣؛ قمی، بیت الاحزان، ص١١٦۔

[20]۔ مجلسی، بحارالانوار، ج۳۰، ص ٣٤٨۔٣٤٩۔

 

منابع

  1. قرآن کریم
  2. ابن ابی الحدید، عبد الحميد‏، شرح ابن ابى الحديد، مكتبة آية الله المرعشي، قم‏، ۱۳۷۸- ۱۳۸۳ش۔
  3. ابن حجر عسقلانی، احمد، الإصابة في تمييز الصحابة، بیروت، دار الکتب العلمیة، ١٤١٠ھ۔
  4. ابن حجر عسقلانی، احمد، لسان المیزان، بیروت، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات، ١٣٩٠ھ۔
  5. ابن شہر آشوب، محمد، مناقب آل ابی طالب، نجف الاشرف، المطبعة الحیدریہ، ١٣٧٦ھ۔
  6. ابن عبد ربه، احمد، العقد الفرید، محقق: قمیحه، مفید محمد؛ ترحینی، عبد المجید، بیروت، دار الکتب العلمية، ۱۴۰۷ھ ۱۹۸۷ء۔
  7. اعلمی حائری، محمد حسین، تراجم أعلام النساء، بیروت، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات، ۱۴۰۷ھ /۱۹۸۷ء۔
  8. ذہبی، محمد، تاریخ الاسلام، بیروت، دار الکتب العربی، ١٤٠٧ھ۔
  9. ذہبی، محمد، میزان الاعتدال، بیروت، دار المعرفة، ١٣٨٢ھ ۔
  10. شهرستانی، محمد، الملل و النحل، قم، شريف رضي‏، ۱۳۶۴ش۔
  11. صفدی، خلیل، الوافي بالوفيات، محقق: ارن‍اووط، اح‍م‍د؛ مصطفی‌، ترکی‌، بیروت، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۲۰ھ /۲۰۰۰ء۔
  12. طبرسی، احمد، الإحتجاج على أهل اللجاج، مشهد، نشر المرتضى‏، ۱۴۰۳ھ۔
  13. طبری، محمد، دلائل الإمامة، قم، بعثت‏، ۱۴۱۳ھ۔
  14. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، بیروت، مؤسسة عز الدين، ۱۴۱۳ھ۔
  15. طبرانی، سليمان، المعجم الکبیر، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ١٤١٥ھ۔
  16. قمی، شیخ عباس، بیت الاحزان، قم، دار الحکمة (مطبوعہ امیر)، ١٤١٢ھ۔
  17. متقي، علي، كنز العمال في سنن الأقوال و الأفعال، بيروت، مؤسسة الرسالة، ۱۹۸۹ء۔
  18. مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار (ع)، بيروت‏، مؤسسة الوفاء، ۱۴۰۴ھ۔
  19. مسعودى، على، اثبات الوصية للامام على بن ابى ‏طالب (ع)، قم، انصاريان، بغیر تاریخ.
  20. موسوي هندي، ناصر حسين، افحام الاعداء و الخصوم بتكذيب ما افتروه علي سيدتنا ام كلثوم عليها سلام الملك الحي القيوم، محقق: اميني نجفي، محمد هادي، تهران، مكتبة نينوى الحديثة، بغیر تاریخ۔

مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):

قرشی، باقر شریف، سقیفہ کانفرنس، مترجم: ذیشان حیدر عارفی، تصحیح: سيد محمد سعيد نقوی، نظر ثانی: سید مبارک حسنین زیدی، مجمع جہانی اہل بیت (ع)، ۱۴۴۲ھ۔ ق،۲۰۲۱ء۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے